احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دو شریعت کے بھاری اجزا ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرنا اور اس کی مخلوق سے نیکی کرنا۔ پس جہاں ’’انجیل‘‘ غلاموں کے ساتھ سلوک کرنے کے متعلق ایک لفظ بھی نہیں کہتی قرآن کریم اسے ایسا ضروری قرار دیتا ہے جیسا والدین سے نیکی کرنا، کیوںکہ ایک ہی الفاظ میں دونوں احکام بیان کیے گئے ہیں، یہ اس قدر صاف حکم غلاموں سے نیکی کرنے کا ہے جس سے کوئی دشمنِ اسلام بھی انکار نہیں کرسکتا۔ چناںچہ ہلیو نے اپنی ’’ڈکشنری آف اسلام‘‘ میں اس بات کو تسلیم کیا ہے، چناںچہ وہ لکھتا ہے کہ یہ بالکل صاف امر ہے کہ قرآن شریف اور احادیث میں غلاموں کے ساتھ نیکی کرنے کی بڑے زور کے ساتھ تاکید کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ دینی اخوت کا سلسلہ جو اسلام نے قائم کیا وہ بجائے خود ایک زبردست محرک نیک سلوک کا تھا۔ آزاد عورتوں اور غلاموں کے درمیان اور آزاد مرد اور لونڈیوں کے درمیان نکاح جائز قرار دیے گئے۔ ایک مشرکہ آزاد عورت اور مسلمان لونڈی میں نکاح کے وقت ترجیح لونڈی کو دی گئی اور ایک مشرک مرد اور مسلمان غلام میں ترجیح غلام کو دی گئی۔ بات بات پر غلاموں کے آزاد کرنے کا حکم دیا گیا اور اسے بعض گناہوں کا کفارہ قرار دے کر یہ سمجھایا گیا کہ غلاموں کے ساتھ نیکی کرنا اور ان کو آزاد کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت ہی محبوب فعل ہے۔ لونڈی اگر نکاح کے بعد فحش کی مرتکب ہو تو اس کی سزا آزاد عورت سے نصف رکھی گئی ہے۔ غلاموں کے نکاح کرنے کا خاص طور پر حکم دیا گیا، چناںچہ فرمایا: {وَاَنْکِحُوا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِمَآئِکُمْط اِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَآئَ یُغْنِہِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖط}1 اور تم میں سے جن کے ازواج نہیں ان کے نکاح کرو اور نیز تمہارے غلاموں اور لونڈیوں میں جو نیک بخت ہوں ان کے بھی نکاح کرو، اگر یہ لوگ محتاج ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انھیں غنی کردے گا۔ قبل از اسلام جو بدیاں عرب میں لونڈی غلاموں کے معاملہ میں تھیں ان سب کو دور کیا گیا۔ من جملہ ان کے ایک یہ بد رسم بھی تھی کہ لونڈیوں سے بدکاری کراکر اس مال سے فائدہ اُٹھاتے۔ جس کی خاص طور پر ممانعت قرآن شریف میں کی گئی ہے۔ یہ ہیں قرآن شریف کے احکام۔ ان میں سب سے پہلے یہ امر دیکھنا چاہیے کہ ان احکام سے آں حضرت ﷺ کے اقوال او رآپ کے متبعین نے کیا سمجھا اور ان پر کیوں کر عمل کیا؟ اس غرض کے لیے احادیث میں آں حضرت ﷺ کے اقوال اور آپ کے عمل کو سب سے پہلے دیکھنا چاہیے۔ احادیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس قدر زور