احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ یورپین دیسی ملازموں کو جن سے وہ خدمت کا کام لیتے ہیں وحشیوں سے اچھا نہیں سمجھتے۔ پھر اتنی بات سے کیا فرق ہوجائے گا کہ وہ ان کا نام غلام نہیں بلکہ خادم رکھتے ہیں۔ آقا اور خادم کے سچے تعلقات کو سمجھنے میں یورپ ابھی اسلام سے باوجود تیرہ صدیاں گزر جانے کے بہت پیچھے ہے۔ جو ذلت قدیم اقوام میں غلام کے نام سے لگی ہوئی تھی اور جو ذلت آج بھی غریب اور کم حیثیت آدمیوں کی کی جاتی ہے اسلام نے اس کو غلامی کے نام سے قطعاً دور کردیا اور نہ صرف لفظوں میں ہی بلکہ عملی طور پر اسے جڑ سے کاٹ دیا۔ اسلام کے ظہور سے آقا اور خادم یا مالک اور مملوک کے تعلقات سچے برادرانہ تعلقات سے بدل گئے۔ آقا اپنے غلام کی محنت کے کاموں میں شریک ہونے لگا اور غلام اپنے آقا کی وجاہت اور عزت میں شریک ہوگیا۔ یہ صرف ان ہی آقاؤں کی حالت نہ تھی جو سوسائٹی کے درمیانی یا نیچے درجہ میں تھے بلکہ معزز سے معزز اور دولت مند سے دولت مند آقاؤں کا بھی یہی حال تھا۔ سب سے پہلے ہمیں قرآن شریف کی تعلیم پر غور کرنا چاہیے کہ وہ غلاموں کے ساتھ کیسا سلوک چاہتا ہے۔ اس بارے میں مندرجہ ذیل آیت قرآن کریم کی وارد ہے: {وَاعْبُدُوا اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْـًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِیْلِلا وَمَا مَلَکَتْ یعنی اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت ٹھہراؤ اور احسان کرو ماں باپ کے ساتھ اور قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور قرابت والے پڑوسیوں اور اجنبی پڑوسیوں اور پاس کے بیٹھنے والوں اور مسافروں اور لونڈی اَیْمَانُکُمْط اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَا}1 غلاموں کے ساتھ جو تمہارے قبضہ میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو دوست نہیں رکھتا جو اترائیں (یعنی دوسروں کے حقوق کی پروا نہ کریں اور) بڑائی مارتے پھریں۔ (یعنی دوسروں کو حقیر سمجھیں)۔ اس آیت شریفہ میں دو قسم کے احکام ایک ہی جگہ اکٹھے کرکے بیان کیے گئے ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی مخلوق سے نیکی اور دوسرے حصہ میں بعض لوگ جن کے ساتھ انسان کو نیکی کرنی چاہیے مخصوص کرکے بیان کیے گئے ہیں، تاکہ ان کی طرف زیادہ توجہ ہو۔ ان دونوں احکام کو ایک ہی جگہ بیان کرنے سے یہ مقصود ہے کہ جیسا اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا اور اس کا کوئی شریک نہ ٹھہرانا اسلام لانے کے لیے ضروری ہے ویسا ہی مخلوق کے ساتھ نیکی کرنا ضروری ہے، کیوں کہ یہی