احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سراسر لغو اور فضول تھا، جس سے کوئی فائدہ نہ تھا بلکہ سراسر نقصان ہی نقصان تھا، اس لیے میں بھی اس غلط فہمی کو دور کرتا ہوں۔ پس سنیے! حق یہ ہے کہ انسانی سوسائٹی اپنی تدریجی ترقی میں ایسی حالتوں سے ہو گزری ہے کہ ان حالات کے ما تحت غلام بنانے میں نہ صرف وہ حق ہی پر تھے بلکہ ضروری تھا کہ ایسے حالات میں غلامی کا رواج ہوتا، تو دنیا میں بہت سے رواج اب تک ایسے چلے آتے ہیں کہ جن پر غور کرو تو وہ دل پر ایک دہشت سی پیدا کرتے ہیں، مگر تاہم بہت سے اغراضِ ترقی کے لیے ان کا جاری رہنا ضروری ہے۔ جس وقت ایک فتح یاب جرنیل بڑے بڑے جہازوں کو جن پر ہزارہا انسان ملک کے چیدہ اور بہادر نوجوان موجود ہوتے ہیں ایک دم غرق کرکے سمندر کی تہہ میں پہنچا دیتا ہے یا ایک بڑے شہر پر گولہ باری کرکے بے شمار بے گناہ عورتوں اور بچوںکو تباہ کردیتا ہے تو کبھی اس کی آنکھ میں ایک آنسو بھی نہیں آتا، مگر ہر حالت میں یہ کہنا جائز نہ ہوگاکہ وہ ایک سخت دل ظالم اور بے رحم انسان ہے۔ وہ لوگ جو اپنی رحم دلی کے سبب ایک انسان کے قتل کو برداشت نہیں کرسکتے اور اس کے واقعات کو سن کر کانپ اُٹھتے ہیں وہی دوسرے موقعوں پر ہزار ہا انسانوں کو اپنے ہاتھ سے قتل کرکے یا اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھ کر کبھی لرزہ نہیں کھاتے، بلکہ بسا اوقات خوش ہوتے ہیں۔ جنگوں کا ہونا انسانی سوسائٹی کی ضروریات میں سے رہا ہے اور اب تک یہی حال ہے۔ جوں جوں انسانی گزشتہ تاریخ کا مطالعہ کیا جاوے یہ معلوم ہوگا کہ لڑائیاں انسان کی ابتدائی ترقی میں اس کی موجودہ حالت سے بڑھ کر ضروری رہی ہیں اور ان ہی جنگوں کے لوازم میں سے ہی غلام بھی ہے، بلکہ درحقیقت غلامی کا رواج انسانی ترقی میں ایک عظیم مرحلہ تھا، کیوںکہ اس رواج کے ساتھ وہ بے رحمی جاتی رہی جس کی رو سے کل کے کل اسیر جو کسی دوسری قوم کے ساتھ جنگ میںہاتھ لگے ہوں قتل کیے جاتے تھے، چناںچہ ایک عیسائی مصنف لکھتا ہے: مگر اس بات کو ابھی تک لوگوں نے اچھی طرح نہیں سمجھا کہ پچھلی تمدنی تدریجی ترقی میںجنگ ایک ضروری فرض کو ادا کرنے والی تھی۔ اوّل اس لحاظ سے کہ جنگ کا اصل مقصود یہ تھا کہ متفرق قومیں ایک ہوجائیں اور اس لحاظ سے یہ ضروری تھا کہ مخالفین میں سے جو لوگ پکڑ لیے جائیں وہ ایک ما تحتی کی حالت میں رکھے جائیں، تاکہ دوبارہ اس قوم کو سر اُٹھانے کی طاقت نہ ہو اور یوں جنگ کا اصلی مقصد حاصل ہو۔ دوم اس لحاظ سے کہ یہ مسلم امر ہے کہ ابتدا میں انسانی سوسائٹی میں محنت اور مشقت کے کاموں سے گریز کیا جاتا ہے اور عموماً آرام طلبی زیادہ ہوتی ہے، پس جب ایک قوم کے لوگ اپنے مخالفوں کے درمیان آ کر رہیں گے تو وہ سوائے مجبوری کے کبھی کام نہ کریں گے، اس لیے ضروری ہوا کہ ان کو غلام بنا کر ان سے کام لیا جاوے۔ اس دوسرے امر کے متعلق اس قدر کہہ دینا کافی ہے کہ دنیا کی کسی قوم میں بھی خود بخود اور خوشی سے محنت کو اختیار نہیں کیا گیا بلکہ ہر ایک ملک میں جس کا ہمیں