احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی ارواح کو ان کے ابدان کے ساتھ وہ تعلق نہ رہا ہو جو حالتِ حیات میں تھا۔ چناںچہ {لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ}3ان میں لفظِ ترک اور آیت {وَالَّذِیْنَ یُتَوَفُّوْنَ} میں لفظ توفی اس کا شاہد ہے، علی ہذا آیت {وَلْیَخْشَ الَّذِیْنَ لَوْ تَرَکُوْا مِنْ خَلْفِہِمْ ذُرِّیَّۃً ضِعٰفًا}4 میں لفظ ترکوا قرینہ مضمون معروض ہے، کیوںکہ جیسے مضمون توفی جس کے معنی لغوی قبض کے ہیں، جب ہی چسپاں ہوتا ہے جب کہ کوئی چیز نکال لی جائے اور یہ بات یہاں اسی وقت صحیح ہوسکتی ہے کہ جب روح کو بدن سے نکال باہر کیا جائے، کیوں کہ الذین کا مصداق آیت {وَالَّذِیْنَ یُتَوَفُّوْنَ} میں وہی ہے، اور نیز وہ نہ ہو تو جسم ہوگا اور ظاہر ہے کہ جسم مورد توفی وقتِ مرگ نہیں ہوتا، کیوںکہ وہ کہیں نکالا نہیں جاتا، اس لیے بھی کہنا پڑے گا کہ ایسے لوگوں کی روح کو اپنے جسم سے وہ علاقہ نہیں رہتا جو وقتِ حیات تھا۔ ایسے ہی مضمون ترک بھی گرفتارانِ محبتِ اولاد واموال کے حق میں جب ہی صحیح ہوسکتا ہے جب کہ اس خاندانِ سفلی کو چھوڑ کر عالمِ علوی کو چلے جاویں۔ سو یہ بھی جب ہی متصور ہے جب کہ روح کو وہ تعلق نہ رہے، ورنہ وہ ترک نہیں بلکہ مثل بند یوانِ دست و پا بستہ ملاقاتِ اولاد و تصرفِ اموال سے مجبور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سکتہ والے کی ازواج و اموال بدستور اس کے ملک میں باقی رہتے ہیں، گو ان لفظوں میں یہ فرق ہے کہ قیدیوں کے اجسام مقید ہوجاتے ہیں مگر ان کا قید خانہ یہی جسمِ خاکی ہوتا ہے، اس لیے وہ پھیلاؤ جو بذریعہ ظہورِ افعالِ اختیاریہ ہوا کرتا ہے اور نورِ آفتاب و قمر کے پھیلاؤ کے مشابہ ہوتا ہے، ایسی طرح بند ہوجاتا ہے جیسے چراغ پر کسی ظرف کے رکھ دینے کے وقت اس کے نور کا پھیلاؤ بند ہوجاتا ہے۔ سو یہی صورت بعینہٖ انبیا ؑ کی موت کی سمجھ لو، اتنا فرق ہے کہ سکتہ میں سوائے بعض مواقع تمام اعضا میں سے روح کھینچ لی جاتی ہے اور تمام قوائے روحانی کو مثل قوتِ سامعہ و قوتِ باصرہ اپنے اپنے مواقع سے کھینچ لیتے ہیں اور اس وجہ سے اگر تدبیر ِمناسب نہ بن پڑے تو رفتہ رفتہ بالکل کھینچ کر باہر کردیتے ہیں اور ارواحِ انبیا کو بدن کے ساتھ علاقہ بدستور رہتا ہے مگر اطراف و جوانب سے سمٹ آتی ہے، اس لیے حیاتِ جسمانی کو نسبتِ سابق اسی طرح قوت ہوجاتی ہے جیسے ظرفِ مذکور کے رکھ دینے کے بعد چراغ کے شعلہ میں نورانیت بڑھ جاتی ہے اور سکتہ میں ایسا ہوجاتا ہے جیسے فرض کرو کہ چراغ ٹمٹمانے لگے اور گل ہونے کو ہو۔ بہرحال ارواحِ انبیائے کرام ؑ کو بدستور اپنے ابدان کے ساتھ تعلق رہتا ہے بلکہ کیفیتِ حیات میں بوجہ اجتماع اور بھی قوت آجاتی ہے اور مثلِ چراغ و ظلمت ظرف محیطِ حیات وموت دونوں مجتمع ہوجاتے ہیں۔ الغرض بقائے حیاتِ انبیا ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ انبیا ؑ کی ازواج کو نکاحِ ثانی کی اجازت نہیں اور اسی وجہ سے ان کے اموال میں میراث کا جاری ہونا مقرر نہیں ہو، اور نیز اس حکم میں عظمتِ انبیا بھی منظور ہے اور لفظ ترک گو ایک حدیث میں منسوب الی الانبیاء بھی ہے مگر دلائلِ حیات کے قرینہ سے وہ مشاکلتاً و مجازاً ہے۔