احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نہیں کرسکتی جو جوانی اور خوب صورتی میں کرسکتی تھی۔ پس ہر حال میں عورت بزبانِ حال اپنے ناکافی ہونے کا اقرار کرتی ہے، کیوںکہ مرد کو ان دو وصفوں کے جمع کرنے کی ضرورت قدرتی طور پر ہے اور کوئی ایک عورت ان دو وصفوں کی جامع نہیں، اس لیے مرد اس ضرورت کو دو عورتوں کے جمع کرنے سے پوری کرتا ہے، جن میں سے ایک میں حسن ہو اور ایک میں تجربہ، تاکہ دونوں کے مجموعہ سے اس طرح منتفع ہو ایک اس کے نفس کو خوش کرے، دوسری اس کی خدمت کرے۔ اس لیے یہ ایک بالکل قدرتی امر ہے کہ ان ممالک میں تعددِ ازواج کا رواج ہو۔ ۴۔ ہر ملک میں مردوں کی نسبت عورتوں کے قویٰ بڑھاپے سے جلدی متاثر ہوتے ہیں۔ پس جہاں مرد کے قویٰ بالکل محفوظ ہوں، جیسا کہ وہ اکثر حالات میں ہوئے ہیں اور عورت بوڑھی ہوچکی ہو، دوسری عورت سے نکاح کرنا بعض حالات میں مرد کے لیے ایسا ہی ضروری ہوگا جیسا کہ پہلے کسی وقت پہلی عورت سے نکاح کرنا ضروری تھا۔ پس جو قانون تعددِ ازواج سے روکتا ہے وہ مردوں کو جن کے قویٰ خوش قسمتی سے بڑھاپے کی عمر تک محفوظ رہیں یہ راہ بتاتا ہے کہ وہ ان قویٰ کے تقاضے کو زنا کے ذریعہ سے پورا کریں۔ ایسا قانون عام انسانوں کی حالتوں کے مطابق کیوں کر ہوسکتا ہے۔ ۵۔ مذکورہ بالا ضروریات تو مردوں کی ہیں مگر خود عورتوں کو بعض وقت ایسی مجبوریاں آ پڑتی ہیں کہ اگر ان کے لیے یہ راہ کھلی نہ رکھی جائے کہ وہ ایسے مردوں سے نکاح کرلیں جن کے گھروں میں پہلی عورتیں موجود ہیں تو اس کا نتیجہ بدکاری ہوگا۔ ایک ہی امر پر غور کرو کہ کس طرح ہر سال دنیا کے کسی نہ کسی حصہ میں لاکھوں مردوں کی جانیں لڑائیوں میں تلف ہوجاتی ہیں، حالاںکہ عورتیں بالکل محفوظ رہتی ہیں، اور ایسے واقعات یعنی جنگوں میں مردوں کی جانوں کا تلف ہونا ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں اور جب تک دنیا میں مختلف قومیں آباد ہیں ایسے واقعات ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے اور ہمیشہ اس سے مردوں کی تعداد میں کمی ہو کر عورتوں کی تعداد بڑھ جاتی، تو ایک ایسے امر سے اگر یہ بھی فرض کرلیں کہ عورتوں کی تعداد کی یہ زیادتی کسی قوم میں ہمیشہ نہیں رہی، تاہم اس سے تو انکار نہیں ہوسکتا کہ ایک مدت تک مردوں کی اس کمی کا اثر ضرور رہے گا۔ اب یہ عورتیں جو مردوں کی تعداد سے زیادہ ہوں گی ان کے لیے کیا سوچا گیا ہے؟ تعددِ ازواج کی ممانعت کی صورت میں ان کا کیا حال ہوگا؟ کیا ان کو یہی جواب نہیں ملے گا کہ جس کے دل میں مرد کی طرف وہ خواہش پیدا ہو جو قدرت نے فطرتِ انسانی میں رکھی ہے وہ ناجائز طریقوں سے اسے پورا کرے؟ سوچ کر دیکھ لو کہ تعددِ ازواج کی راہ کو بند کرکے ان لاکھوں عورتوں کو جو اس طرح لڑائیوں کے سبب سے بیوہ ہوگئیں یا جن کے لیے نکاح کے ذرائع نہیں رہے کیا یہی جواب نہ دینا پڑے گا؟ مانعینِ تعدد پر افسوس ہے کہ ایک غلط اصول کی حمایت میں انسانی ضروریات پر ایک لمحہ کے لیے بھی غور نہیں کرتے، وہ نہیں سوچتے کہ تعددِ ازواج کے سوا اور کوئی ایسی راہ نہیں جو ان