۷۔ سفر دینی اور دینوی لحاظ سے ایک بہترین چیز ہے۔ اس سے اقوام کے اخلاق وعادات کا پتہ چلتا ہے۔ مختلف تجربات اور دینی ودنیوی منافع حاصل ہوتے ہیں۔ موجودہ او رسابقہ امتوں کے حالات اور مقامات کو دیکھ کر خاص عبرت حاصل ہوتی ہے۔ سفر حج کے کرنے والے جانتے ہیں۔ کہ اس سفر سے بہتر کوئی دوسرا سفر نہیں۔ یہ سب چیزوں کے لے جامع ہے۔
۸۔ امت محمد یہ (علی صا جبہا سلام وتحتۃ) کے لیے ان مقامات کی زیارت اس وجہ سے بھی خاص طور سے قابل اہتمام اور حق تعالیٰ شانہ کی رضا حاصل ہونے کا ذریعہ ہے کہ سردار دوعالم ﷺ کا مولدو مسکن ہیں اور دینی حیثیت سے اس جگہ کو مرکزی شان حاصل ہے۔ بیت اللہ مسلمانوں کا قبلہ ہے اس کی زیارت اورطواف اور وہاں نماز کا ادا کرنا گویا دربار خداوندی میںحاضر ہوناہے۔
۹۔ سفر حج سفر آخرت کا نمونہ ہے جس وقت حاجی گھر سے چلتا ہے اور احباب واقارب سے رخصت ہوتا ہے تو جنازے کا سماں نظر آتاہے کہ ایک روز اس عالم سے سب عزیزی واقارب کو چھوڑ کر سفر آخرت کرنا ہوگا۔ جب احرام کا لباس پہنتا ہے تو کفن کا وقت یاد آتا ہے ۔ اور میقات حج گویا میقات قیامت کی نظیر ہے اور عرفات کے میدان میں ہزاروں آدمیوں کا اجتماع اور حرار ت کی تمازت روز محشر کا نمونہ ہے۔ اسی طرح اور تمام افعال میں اگر غور کرو گے تو سفر آخرت کا نمونہ نظر آئے گا۔
۱۰۔ حج میں توحید اوراطاعت خالق وحدہ لاشریک لہ کا مظاہرہ ہے کیونکہ افعال فح سے مقصود اطاعت رب البیت ہے نہ کہ درود دیوار اورمیدان عرفات۔ جب ہم کو وہاں کی حاضری کا حکم کیا گیا تو ہم محض اظہار عبودیت اورکامل انقیاد ظاہر کرنے کے لیے اپنے مالک وخالق کے حکم پر لبیک کہتہ ہوئے حاضر ہوگئے۔
سفر حج کے آداب
جب حج فرض ہو جائے تو تاخیر نہ کی جائے اور خدا پر بھروسہ کرکے سفر کا انتظام شروع کر دیا جائے اور جوآداب سفر ذکر کئے جاتے ہیں ان کا خیال رکھا جائے۔
نیت۔ محض اللہ تعالیٰ کی خشنودی او رادائے فریضہ و تعمیل ارشاد کی نیت سے حج کرو۔ نام کے لیے یاسیرو سیاحت۔ تفریح وتبدیل آب وہواکے لیے سفر نہ ہو بہت سے لوگ محض سیاحی اور حاجی کالقب حاصل کرنے کے لیے سفر کرتے ہیں۔ حق تعالیٰ مسلمانوں کو اس بلا سے محفوظ رکھے۔ جناب رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے۔
(۱) اَنّمَا اْلاَ عْمَالُ بِانیْات (رواہ الجاری ومسلم) (۲) یاتی علی الناس زمان یحج اغنیاء الناس للنز اہۃ واوساطہم للتجارۃ وفقراء ہم للمسئلۃ وقراء ہم للمسعۃ والریاء۔ (الدیلمی عن انس کنز العمال ص۲۶)
اعمال کا ثواب صرف نیتوں پر موقوف ہے۔ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئیگا کہ ان میں سیمالدار لوگ صرف سیرو سیاحت اور تفریح کے لیے حج کریں گے اور متوسطہ طبقہ کے لوگ تجارت کے لیے اور فقراء سوال کرنے کے لیے اور قراء علماء نام