کفایت ساتھ لے لیا ہے او ردرمحبوب پر جان دینے کے لیے بیتاب ہے۔
چورسی بکوئے دلبر بسپار جان مضطر
کہ مبادبار دیگر نہ رسی بدیں تمنا
بال وناخن بڑھے ہوئے ہیں میل وکچیل بدن پر جما ہواہے اورزبان پر لبیک لبیک (۲) ہے گویا محبوب آواز دے رہا ہے اوریہ نہایت محویت اور شوق کے ساتھ زبان حال وقال سے جواب دے رہا ہے۔
جب محبوب کے دربار میں پہنچتا ہے تو کبھی اس کے درو دیوار کو چومتا ہے (یعنی حجر اسود کو بوسہ دیتاہے) کبھی اس کے چاروں طرف گھومتا ہے‘ طواف کرتاہے اورکہتاہے۔
امر علی الدیار دیار لیلے
اقبل دالجد اروذا الجدارا
وما حب الدیار شخقن قلبی
ولکن حب من سکن الدیارا (۳)
جب یہ دیکھتا ہے کہ اس ناچیز کو اس سعادت عظمیٰ سے شرف فرمایا گیا تو فوراً سجدہ شکر بجا لا تا ہے (یعنی دوگانہ طواف ادا کرتا ہے اوراپنی غلامی کا اظہار اور خداکی معبودیت کااقرار کرتاہے) پس جب کہ حج اظہار عبودیت کا اعلی ذریعہ ہے اور اظہار عبودیت واجب ہے تو حج واجب ہے۔
نیز حج میں شکر نعمت بھی ہے کیونکہ عبادت کی دو قسمیں ہیں۔ مالی جس میں مال خرچ کرنا پڑتا ہے جیسے زکوٰۃ اور بدنی جس میں مشقت ہو جیسے نماز روزہ۔ مگر حج میں دونوں باتیں جمع ہیں مال بھی صرف کرنا پڑتا ہے اور مصائب ومتاعب تھکا دینے والے امور بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ اسی واسطے وجوب حج کے لیے مال اور صتحشرط ہے گویا حج میں دونوں نعمتوں کا شکر ادا کیا جاتاہے کیونکہ شکر نعمت یہ ہے کہ اس کو منعم کی اطاعت میں صرف کیا جائے اور شکر نعمت عقلاً شرعا‘‘ عرفا‘ ہر طرح فرض ہے تو حج بھی فرض ہے۔
حج کی تاکید اور تارک کے لیے وعید
جب حج فرض ہوجائے تو جہاں تک ممکن ہو بہت جلد ادا کیا جائے اور تاخیر نہ کی جائے جو شخص باوجود قدرت واستطاعت اور شرائط کے پائے جانے کے حج نہ کرے اس کے لیے حدیث میں سخت وعید آئی ہے۔ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں اس لیے فرض ہوتے ہی ادا کرنا چائیے۔
(۱) عن ابن عباس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من اراد الحج فلیتعجل (ابو داود)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول ﷺنے فرمایا جو شخص حج ارادہ رکھتاہے اس کو جلدی کرنی چاہیے۔
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے حج کرنے والوں کو جن پر حج فرض ہو چکا ہے