علیٰحدگی ہو سکتی ہے۔
حج کے مسائل سیکھنا: حج کرنہ والے کے لیے وقت سے بیشتر مسائل حج کا سیکھنا واجب ہے اس لیے جب ارادہ ہو جائے یا سفر شروع کرو تو اسی وقت سے مسائل معلوم کر دیا کسی معتبر عالم سے دریافت کرتے رہو یا کوئی معتبر کتاب ساتھ رکھو اور اس کو بار بار مطالعہ کرتے رہو اور جوبات سمجھ میںنہ آئے اس کو کسی عالم سے سمجھ لو۔ عام لوگوں کی تقلید مت کرو اورمعمول لی لکھے پڑھوں پر بھی بھروسہ مت رکھو بلکہ جو معلم لوگ مکہ مکرمہ کے حج کرانے والے ہوتے ہیں ان پر بھی اعتماد مت کرو یہ لوگ اکثر نا واقف ہوتے ہیں اور اگر ان کو مسائل معلوم ہوتے بھی ہیں تو اہتمام نہیں کرتے اس لیے تحقیق مسائل جہاں تک ممکن ہو کسی معتبر عالم سے کرو اور ایسے ہی کسی شخص کی رفاقت کی کوشش کرو۔
ابتدائے سفر: سفر کی ابتداء شروع مہینہ میں جمعرات کو کی جائے۔ حضور ﷺ نے جمعرات کے روز حج کا سفر شروع کیا تھا اور اکثر آپ جمعرات ہی کو سفر کرتے تھے۔ اگر جمعرات کو نہ ہوسکے تو پیر کی صبح سے سفر شروع کیاجائے۔ یا جمعہ کونماز جمعہ کے بعد شروع کیا جائے۔ مگراب سفر حج اپنے اختیار کانہیں رہا حکومت جب اور جس روز چاہے بھیج سکتی ہے۔
سواری کا جانور: سواری قوی اور مضبوط تلاش کرو۔ سامان کرائے والے کو دکھلا دو۔ بلا اجازت زیادہ سامان رکھنا جائزنہیں۔ بعض فقہانے لکھا ہے ۔ کہ پیدل سفر کرنے سے سوار ہو کر سفر کرنا افضل ہے کیونکہ جب پیدل چلے گا تو مشقت اور تکلیف کی وجہ سے پریشان ہوگا اور اخلاق پراس کا برا اثر پڑیگا جس کی وجہ سے رفقا سے لڑائی جھگڑا کرے گا۔ لیکن محض لطف اورتفریح طبع کے لیے سوار نہ ہونا چاہیے ضرورت کا لحاظ اورنیت خیر ہونی چاہیے۔ گدھے پر حج کرنا مکروہ ہے اونٹ پر افضل ہے۔ سعودی عرب میںاب اونٹ کاطریقہ ختم کر دیا گیاہے۔ اگر (۱) جانور بر حج کرنے کا اتفاق ہوتواس کی راحت کا لحاظ بہت ضروری ہے۔
فضول خرچی اور کنجوسی: حج کے سامان اور زادارہ میں کنجوسی مت کرو۔ جو روپیہ حج میں خر چ ہوتا ہے اس کا ثواب سات گنایا اس سے بھی زیادہ ملتا ہے ہاں اگر روپیہ کم ہو تو احتیاط سے خرچ کرنا چاہیے فضول خرچی سے بچنا چاہے لیکن جو صاحب وسعت ہیں أن ک وتنگ دستی نہ کرنی چاہیے۔ تو شہ عمدہ لذیذ اور زیادہ ساتھ لو زیادہ پیٹ بھر کرنا کھاؤ۔ مختلف قسم کے کھانے بھی زیادہ نہ پکاؤ اوربناؤ سنگار بھی نہ کرو۔ اپنے توشہ میںکسی کو شریک نہ کرو اس سے اکثر نزاع (جھگڑا) پیدا ہوجاتا ہے اور مستحب بھی ہے کہ کسی کو شریک نہ کیا جائے کیونکہ اس میں تنگی ہوجاتی ہے۔ صدقہ خیرات بلا اجازت شرکاء نہیں کرسکتا۔ لیکن اگر رفقاء بامروت اورباہم مسامحت (چشم پوشی) کرنے والے ہوں تو شرکت کا مضائقہ نہیں۔ شرکت کی صورت میں مستحب یہ ہے کہ اپنے حق سے کم پر کتفا کیاجائے۔
ایک دستر خوان پر مجمع ہو کر کھانا جائز بلکہ مستحسن ہے۔ اگر ساتھیوں میںکسی