فراخی دی اور ہر چار سال میں اس نے میرے پاس حاضری نہ دی تووہ محروم ہے (جمع الغوائد) معلوم ہواکہ مالداروں کو حج نفل بھی کثرت سے کرنا چاہیے۔
بشرطیکہ دوسرے فرائض میں کو تاہی نہ ہو۔
حج کی مصالح اور حکمتیں
موجودہ زمانہ میں جہالت کے کثرت کے باوجود علم کا دعویٰ ہے اورہر شخص اپنی عقل پر نازاں ہے جو چیز سمجھ میں نہ آئے وہ غلط ہے جس چیز میں ہمیں کوئی مصلحت معلوم نہ ہو وہ لغو اور بیکار اور تو اور احکام شرعیہ قطعیہ میں بھی رائے زنی کی جاتی ہے نہ صرف ان کی مصالح پر بس کیا جاتا ہے بلک علل دریافت کی جاتی ہیں اوریہ مرض ایساعام عوگیا ہے۔ کہ ہر شخص احکام شرعیہ کی علت دریافت کرتاہے بلکہ اس کے بغیر تسلل ہی نہیں ہوتی۔ یہ سب بددینی ا ور خدائی احکام کی عظمت سے نااقفیت کی بنا پر ہے ورنہ ہمارا کیا منہ ہے کہ ہم اس خالق و مالک ک یاحکام کی علل دریافت کریں وہ مالک ہے جو چاہیے حکم کرے ہم کو یہ حق نہیں کہ ہم لفظ کیوںزبان پر لائیں ارشاد خداوندی ہے کہ
(۱) لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَہُمْ یُسْئَلُوْنَط ہمارا تویہ کام ہونا چاہئے۔
زباں تازہ کر دن با قرار تو
نیتگیختن علت ازکار تو
اس کے علاوہ یہ سوال کہ اس حکم میں کیا مصلحت اور اس کی کیا علت ہے خود مقنن (۱) (قانون بنانے والے )سے ہوسکتا ہے علماء سے نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ علماء قوانین کے ناقل ہیں خود مقنن نہیں لیکن بایں ہمہ یہ نہیں کہ احکام شرعیہ حکمت اور مصلحت سے خالی ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر شخص ان کو سمجھ جائے۔ حکمائے اسلام نے سب احکام کی مصالح بیان کی ہیں اور اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ لیکن یہ خواب ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ یہ سب مصالح مدار احکام نہیں ہیں۔ اگر یہ مصالح نہیں بھی ہوں تب بھٖ ہمارا فرض ہے کہ ہم خدائی حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں اور سمجھیں کہ حق تعالیٰ حکیم ہیںاور نسخ فعل (۲) الحکیم لا یخلو عن الحکمۃ یہ ہماری عقل کی کوتاہی ہے کہ ہم ان کے اسرار غامضہ تک نہیں پہنچ سکتے۔
چونکہ ہماری عقل اور علم دونوں ناقص ہیں اور رہنمائی کے لیے کافی نہیں اسی لیے انبیاء کو بھیجا گیا کتابیں نازل کی گئیں تاکہ احکام الہٰی بندوں کو معلوم ہوں۔ حکمائے اسلام نے حج میں بہت سی حکمتیں (۱) بیان کی ہیں اور ہرہر فعل کے اسرار علیحدہ ذکر کئے ہیں جو اپنے مقام پر مذکور ہیں۔ ہم صرف اجمالی طریق سے حج کی چند حکمتیں (۲) ذکر کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ہر چیز کا فلسفہ تلاش کرنے والوں کے لیے کچھ موجب تسکین ہو۔
۱۔ ہر زمانہ ہر قوم اور ہر ملت میں یہ دستور رہاہے اور ہے کہ اس کے پیرو کسی خاصمقدس مقام پر مجمتع ہوکر تبادلئہ خیالات کرتے ہیں۔ ہر ایک دوسرے سے