ذبح کا حد حرم میں ہونا اوررمی کا منیٰ میںہونا۔ اگر کوئی شخص حج کے افعال کو خواہ وہرکن ہوں یاواجب یاسن اس کی خاص جگہ کے علاوہ کسی دوسری جگہ کرے گا تو وہ افعال صحیح نہ ہونگے ۵،۶۔ تمیز اور عقل ۷۔ احرام کے بعدوقوف عرفہ سے پہلے جماع کانہ ہونا۔ اگر جماع کرلیا تو حج صحیح نہ ہوگا اگر چہ سب افعال پورے کرنے ہونگے لیکن قضا واجب ہوگی ۸۔ افعال کوحج خود کرنا خواہ شرائط ہوں اراکان یا اجبات البتہ بعض افعال میں عذر کی صورت میں نیابت بھی جائز ہے جس کا بیان انشاء اللہ آگے آئے گا۔ ۹۔ جس سال احرام باندھے اسی سال حج کرنا۔
شرائط وقوع فرض
یعنی وہ شرائط جن کا پایا جانا حج کے فرض واقع نے اورذمہ سے ساقط ہونے کے لیے ضروری ہے۔
۱۔ حج کے وقت اسلام ہونا ۲۔آخر عمر تک اسلام کاباقی رہنا اگر کوئی شخص العیاذ باللہ حج کے بعد کافرہوگیا تواس کا پہلا حج معتبر نہ ہوگیا۔ مسلمان ہونے کے بعد پھر کرنا واجب ہوگابشرطیکہ شرائط موجود ہوں ۳۔ آزاد ہونا ۴۔بالغ ہونا ۵۔عاقل ہونا ۶۔حج خود کرنا جب کہ قدرت ہو ۷۔حج کو جماع سے فاسد نہ کرنا ۸۔کسی دوسرے کی طرف سے حج کی نیت نہ کرنا ۹۔نفل کی نیت نہ کرنا۔
مسئلہ: اگر غلام یانابالغ یا مجنون (۱) نے حج کیا تو وہ حج فرض نہ ہوگا بلکہ غلام کو آزاد ہونے نابالغ کو بالغ ہونے اور مجنون کواچھا ہونے کے بعد پھر حج کرنا ہوگا بشرطیکہ قدرت اور شرائط موجود ہوں۔
مسئلہ: اگر احرام باندھنے کے بعد کوئی شخص مجنون ہوگیا یا احرام کے پہلے مجنون تھا مگر احرام کے وقت افاقہ ہوگیا اور احرام کی نیت کرکے تلبیہ پڑھ لیا اس کے بعدپھر مجنون ہوگیااورتمام افعال اس کو ساتھ لے کرولی نے کرادئیے تو اس کا حج فرض ادا ہوجائے گا البتہ طواف زیارت افاقہ ہونے کے بعد خود (۱) ادا کرنا ضروری ہوگا۔
فائدہ: اگر شرائط وجوب پائے جانے کے باوجود کسی شخص نے خود حج نہیں کیا تو اس کو حج بدل کی وصیت کرنی واجب ہے۔ خواہ شرائط ادا پائے گئے ہوں یا نہ پائے گئے ہوں اور اگر شرائط ادا تو پائے گئے لیکن شرائط وجوب نہیں پائے گئے تووصیت واجب نہیں کیونکہ شرائط وجوب کے مفقود ہونے کے صورت میں حج فرض نہیں ہوا۔
فرائض حج: حج کے اصل فرض تین ہیں ۱۔ احرام یعنی حج کی دل سے نیت کرنا اور تلبیہ یعنی لبیک الخ کہنا۔ احرام کا مفصل بیان ان شاء اللہ آگے آئے گا۔ ۲۔ وقوف عرفات یعنی ۹ ذی الحجہ کوزوال آفتاب کے وقت سے ۱۰ ذی الحجہ کی صبح صادق تک عرفات میں کسی وقت ٹھہرنا، اگر چہ ایک لحظہ ہی کیوں نہ ہو ۳۔ طواف زیارت جو دسویں ذی الحجہ کی صبح سے لے کر بار ہویں ذی الحجہ تک سرکے