وَرَسُوْلُہٗ وَاِقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاِیْتَائَ اِلزَّکٰوۃَ وَحج البیت وصَومَ رَمْضَانَ (رواہ مسلم وبخاری)
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ رسول ﷺ سے روایت کرتے ہیں گہ آ نے فرمایا کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ (۱) اس امر لاکی شہادت دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں اور (۲) نماز پڑھنا (۳) زکوٰۃ دینا اور (۴) بیت اللہ کاحج کرنا (۵)رمضان کے روزے رکھنا۔
اس روایت میں تصریح ہے کہ اسلام کے پانچ رکن ہیں۔ توجو شخص ان میں سے کسی رکن کو ترک کرتا ہے و قصر اسلام کی عمارت کو منہدم کرنا چاہتا ہے۔
(۳) عن ابن عباس قال ان امراۃ من خثعمہ قالت یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان فریضۃ اللہ علی عبادہ فی الحج ادرکت ابی شیخا کبیرا لا یثبت علی الراحلۃ افاحج عنہ قال نعم وذلک فی حجۃ الوداع (بخاری ومسلم)
ترجمہ: ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ خشعم کی ایک عورت نے کہا یا رسول ﷺ اللہ کا فریضہ حج جو بندوں پر ہے وہ میرے باپ پڑ بڑھاپے کی حالت میں فرض ہوگیا وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتاتو کیا میںاس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں آپ نے فرمایا کہ ہاں اوریہ حجۃ الوداع کاواقعہ ہے۔
اس حدیث سے ثابت ہواکہ حج فرض ہے اور جس پر حج فرض ہو اگر وہ کسی عذر کی وجہ سے خود نہ کر سکے تو کسی شخص سے اپنی طرف سے حج کرائے۔
حج کی فرضیت اجماع سے
ملک العلماء علامہ کا سانی رحمہ اللہ نے بدائع میں اور شیخ رحمہ اللہ سندھی نے لباب المناسک میں حج کی فرضیت پر اجماع نقل کیا ہے۔
واما الاجماع فلان الامۃ اجمعت علی فرضیتہ (بدائع ص۱۱۸ ج۲)
تمام امت نے حج کی فرضیت پر اجماع کیاہے۔
الحج فرض مرۃ بالاجماع علی کل من استجمعت فیہ الشرائط (لباب مت) حج ایک مرتبہ بالاجماع ہر اس شخص پر فرض کیاگیاہے جس میں حج کی شرائط پائی پاتی ہیں۔
حج کی فرضیت عقلی (۱) طریق سے
جس قدر عبادات ہیں سب کا مقصد اظہار عبودیت اور شکر، نعمت ہے اور حج میں یہ دونوں باتیں پوری طرح سے پائی جاتی ہیں کیونکہ اظہار عبودیت سے مقصود اپنی عاجزی اور انکساری کااظہار ہے اور حاجی کی حالت پر بالخصوص احرام کے وقت اگر غور کیا جائے توانتہائی تذلل ظاہر ہوتاہے اس کی حرکت اورسکون سے عاجزی ظاہر ہوتی ہے۔
گھر بار، عزیز قریبژ مال ودولت سب کو چھوڑ کر بحری اور بری سفر کی تکالیف، بھوک وپیاس اوردوران راس وامتلا (سر چکرانا اور متلی ہونا) کی مصیبت کو برداشت کرتا ہوا پر گندہ حال دیار محبوب کی طرف مجنونہ واردوڑ اچلا جاتا ہے۔ آرائش وبیائش کے لباس کو چھوڑ کر صرف ایک لنگی اور چادر لپیٹتاہے گویا کفن