طرح جو آج کل جو عام طور سے رواج ہو گیا ہے کہ مسجد حرام اور مسجد نبویﷺ میں لوگ پانی پلاتے ہیں اور پینے والے ان کو پیسہ دیتے ہیں اور عام طور پر پانی پلانے والوں کی عادت یہی ہے کہ وہ معاوضہ کے طالب ہوتے ہیں یہ بھی بیع اور شراء ہے گو الفاظ بیع وشراع کے نہ ہوں لیکن حنفیہ کے نزدیک اس طرح پانی پلا نا اور اور اس کا معاوضہ دینا بیع طعاطی میں داخل ہے اس لئے بقاعد’’ المعروف کالمشروط ‘‘اس طرح مسجد میں پانی پینا اور پلا نا مسجد میں جائز نہیں اس سے حجاجب کو احتیاط کرنی چاہئے اس کے مقابلے میں سبیل کی صراحیوں میں پانی پینا بہتر ہے گو مجھے کتب حنفیہ میں خاص طور سے اس کی صراحت نہیں ملی لیکن اصول قواعد سے عدم جواز بلکل ظاہر ہے البتہ علامہ ابن الحاج المالکی نے مدخل میں اس مسئلہ پر تفصیلی بحث کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایسے پانی پلانے والوں کو مسجد میں داخل ہونے سے منع کیا جائے کہ جو مسجد میں داخل ہوتے ہیں اور اس طرح پانی پلا کر معاوضہ لے تے ہیں اور دعا دیتے ہیں کیونکہ یہ طریقہ بدعت ہے اور اس میں چند خرابیاں ہیں اول تو یہ ہے کہ وہ کٹوریوں کو ناقوس کی طرح بجاتے ہیں دوسرے یہ کہ بلا ضرورت شرعی مسجد میں آواز بلند کرتے ہیں تیسرے یہ کہ مسجد میںکرید وفروخت کرتے ہیں اور صفوف کو چیرتے پھاڑتے پھرتے ہیں اور جس کو پیاس لگتی ہے وہ ان کو بلا کر پانی پیتا ہے اور اس کا عوض دیتا ہے جو کہ بلا شبہ بیع ہے کیونکہ اس طرح دینا لینا امام مالک اور ان کے متبعین کے نزدی بیع (طعاطی میں داخل ) ہے چھوتے یہ کہ لوگوں کے اوپر کو پھلانگتے ہیں اور اس طرح لوگوں کے اوپر پھلانگنا موجب تکلیف ہے پانچویں یہ کہ اس سے مسجد کی تلویث لازم آتی ہے کیونکہ کچھ نہ کچھ پانی ضرور گرتا ہے اور گویاکہ پانی پاک ہے لیکن اس طرح سے بھی مسجد میں پانی گرانا ممنوع ہے ۔
چھٹے بعضے ننگے پیر ہوتے ہیں اور مسجد میں بلا پائوں دھوئے ناپاک پیروں سے داخل ہوکر مسجد کر فرش اور نمازیوں کے کپڑوں کو ناپاک کرتے ہیں آجکل یہ بدعت بیت اللہ اور مسجد نبوی ﷺ دونوں جگہ ہے تعجب ہے کہ حکومت کی طرف سے اس کا کوئی معقول انتظام نہیں بہتر یہ ہے کہ حاجی اپنے ہمراہ کوئی برتن رکھے اور زمزم سے بھر کر لے آئے۔
مقامات قبولیت دعا
یوں تو مکہ مکرمہ میں ہر جگھہ دعا قبول ہوتی ہے لیکن بعض خاص خاص مقامات پر خصوصیت سے دعا قبول ہوتی ہے اس لئے ان ان مقامات پر خصوصیت سے دعا