اگر وہ حج یا عمرہ کینیت سے مکہ مکرمہ جائیں تواحرام باندھناان پرواجب ہے اور اگر حج وعمرہ کے ارادہ سے نہ جائیں تو ان کے لیے احرام باندھ کر جانا ضروری نہیں ہے۔ یلا احرام کے مکہ مکرمہ میں داخل ہوسکتے ہیں ایسے ہی وہ آفاقی جو وہاں حج وعمرہ کے بعد مقیم ہوگیا ہو وہ بھی ان کے حکم میں ہے یاکوئی آفاقی شخص کسی ضرورت سے کسی جگہ حل میں اپنے وطن گیا اور وہاں سے مکہ مکرمہ کاارادہ ہو گیاتو وہاں سے وہ مکہ مکرمہ بلا احرام جاسکتا ہے وہ اہل حل کے حکم میں ہے ان کو بلا احرام مکہ مکرمہ میںداخل ہونا جائز ہے۔
حکمت میقات زمانی
حج کے لیے خاص مہینے اورخاص اوقات مقررہ کرنے میں یہ حکمت ہے کہ سب لوگ متفقہ طور سے وقت عین پر مجتمع ہوکر شائر اسلامی اور قوت وشوکت کا مظاہرہ کریں۔ ایک وقت میں کسی کام کو کرنے میں بہت سی آسانیاں ہو جاتی ہیں اور ایک کو دوسرے سے اعانت وتقویت حاصل ہوتی ہے اگر وقت مقر رنہ ہوتا تو اس عبادت کی ادائیگی میں تفرق وتشتت ہوتا اورلوگ مختلف اوقات میں حج ادا کر نیکی صورت میں فوائد اجتماع سے محروم رہنے کے علاوہ بہت سی تکالیف ومصائب میں بھی مبتلا ہوتے۔ کَمَالَا یَخْفٰی عَلٰی اَرْبَابِ الْبَصِیْرَۃِ۔
اور قمری مہینوں کو شمسی مہینوں کے مقابلہ میں اس وجہ سے ترجیح دی گئی ہے کہ ا ن میں تغیر موسم ہوتا رہتا ہے کبھی گرمی میںحج ہوتاہے کبھی سردی میں اس لیے ہر موسم میں حج کرنے کا موقع ملے گا نیز عرب کا حساب شمسی مہینوں پر نہیں ہوتا بلکہ قمری پر ہوتا ہے۔ اورقمری حساب کتاب عام طور سے سہل ہوتا ہے چاند کا ہ رمہینے نکلنا اور غائب ہو جانا اور مختلف صورت وہیئت بدلتے رہنا بھی تاریخ اور مہینوں کے معلوم کرنے میں سہولت کاباعث ہے اور ظاہر ی علامت ہے بخلاف شمسی مہینوں ہے۔
حکمت میقاتِ مکانی
جیسا کہ شروع میں بیان کیا جاچکا ہے کہ حج میں اصل مقصد اظہار عبودیت اور خواہشات ولذاتِ نفسانیہ کاترک ہے ’اور لوگ مختلف اطراف وجوانب سے حج کے لیے آتے ہیں کوئی دو ماہ کی مسافت سے کوئی چھ ماہ کی کوئی اور کم وزیادہ‘ اگر گھر سے ہی ایس حالت میں یعنی احرام باندھ کر آنا واجب ہوتاتوبڑی مشکل ہوتی گو بعض خدا کے خاص بندوں نے ایسا بھی کیا۔ لیکن عام طور سے اس میں بڑی دقت ہوتی ہے۔ اس لیے شارع علیہ السلام نے ہماری مصلحت اورفائدہ کے لیے مکہ مکرمہ کے چاروں طرف خاص خاص مشہور مقامات مقرر کر دئیے اس جگہ سے دربار خداوندی کی خاص تعظیم واحترام کے لیے خاص صورت بنا کر داخل ہونا ضروری ہے اور مدینہ منورہ کی میقات سب میقاتوں سے فاصلہ پر مقرر کی کیونکہ مدینہ منورہ کو مہطِ وحی اور مر کزایمان اور دار ہجرت ہونے کا شرف حاصل ہے اس لیے اس کے باشندوں کو سب سے زیادہ احترام وتعظیم کرنا چاہیے۔