اشرف العملیات - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
باب میں نازل ہوئی ہیں نکل آئیں، اور اس سے وہ اپنے انجام پر استدلال کرے کہ جدائی ہوگئی۔ یا اس مشورہ پر استدلال کرے کہ اس سے جدائی کرلینا مناسب ہے۔ اور واقع میں بھی ایسا ہو، کیا یہ استدلال صحیح ہے؟ اور کیا قرآن سے اس خبر یا انشا کی صحت کا اعتقاد جائز ہوگا؟ اسی وجہ سے محققین علما نے ایسے تفاؤل کو حرام کہا ہے۔2 (چوں کہ ) توکل کے بعض مراتب یعنی اعتقادی توکل فرض اور شرائط ایمان میں سے ہے اور طیرہ (یعنی بدفالی) اس توکل کے خلاف ہے، اس لیے حرام اور شرک کا شعبہ ہے۔ جیسا کہ اور احادیث سے مفہوم ہوتا ہے اور جس فال کا جواز ثابت ہے اس میں اعتقاد یا اخبار (خبر دینا) یا طلب کرنا نہیں، بلکہ کلماتِ خیر سے رحمت کی امید ہے جو ویسے ہی مطلوب ہے۔3 مولانا شاہ عبد الحق محدث دھلوی ؒ نے فرمایا کہ از روئے احادیث کسی چیز سے نیک فال لینا تو درست اور جائز ہے مگر بدفالی لینا درست نہیں۔ فرق کی وجہ یہ ہے کہ نیک فال کا حاصل زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ اپنا مقصد پورا کرنے کی قوی امید ہوجائے گی۔ اور بندہ بھی اس کا مامور ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مایوسی قطعِ رجا (امید کو ختم کرنا) ہے، اور اللہ سے رجا (یعنی امید) ختم کرنا حرام ہے، اور جو چیز اس کا سبب ہے وہ بھی ناجائز ہے۔ جب تک شر کے لیے کوئی دلیل نہ ہو حسنِ ظن مامور بہ ہے، اور بدگمانی ممنوع ہے۔ غرض حسنِ ظن کے لیے دلیل کی ضرورت نہیں، عدم الدلیل علیٰ خلافہ (یعنی اس کے خلاف ثبوت نہ ہونا) کافی ہے اور بدگمانی بغیر دلیل کے جائز نہیں۔4 واقعۂ افک میں قرآن کا ارشاد اس پر شاہد ہے {فَلَوْلَآ اِذْ جَائَ ہُمْ }1 جس تفاؤل (فال لینے کی ) اجازت ہے اس کی حقیقت صرف رجا (امید )کی تقویت ہے ایک ضعیف بنیاد پر، جو اس کے بغیر مامور بہ ہے نہ کہ استدلال۔ اور اس درجے میں قرآن سے بھی فال لینا جائز ہوگا۔ فال وغیرہ کی بنا پر کسی مسلمان سے بدگمان ہوجانا، اور کسی قول یا فعل یا غیر مشروع خیال کا مرتکب ہوجانا، یہ خاص خرابیاں ہیں اس عملِ فال میں۔ غرض فال نکالنے کا عمل مروّج طریقے پر بالکل مذموم ہے۔ اور جس فال کا جواز ثابت ہے اس میں اعتقاد یا اخبار نہیں، بلکہ کلماتِ خیر سے رحمت کی امید ہے۔ یہ ویسے بھی مطلوب ہے: یُعْجِبُہُ الْفَالُ الصَّالِحُ (نیک فالی کو پسند فرماتے تھے)۔اور اکابر سے (جو فال ثابت ہے) اس کی اصل صرف اتنی ہے کہ کسی شخص کو کچھ تشویش یا فکر ہے، اس وقت اتفاق سے یا کسی قدر قصد سے کوئی لفظ خوشی وکامیابی کا اس کے کان میں پڑا یا نظر سے گزرا تو رحمتِ الٰہیہ سے جو امید (کرنا) ہر مسلمان پر فرض ہے، اور اس کو پہلے سے بھی تھی وہ اس لفظ سے اور قوی ہوگئی۔ پس اس کا حاصل تقویتِ رجائے رحمت (یعنی رحمت کی امید کو قوی کرنا) ہے۔ اس سے آگے اختراع اور ابتداع میں تفاؤل کو مؤثر نہیں سمجھتا اور نہ ایسا سمجھنا جائز ہے۔ مگر محض تقویتِ رجا (امید کی قوت) کے لیے تفاول کیا جاتا ہے۔2