احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بھی لکھا ہے: فإنہ ینعش الحرارۃ الغریزۃ، ویقویھا، وینفع الغمي الحادث عن الکرب الحمامي وغیرہ۔ یعنی منہ، ہاتھ پاؤں پر پانی چھڑکنا حرارت غریزہ کو تازہ اور قوی کردیتا ہے اور حمام وغیرہ کی تکلیف سے جو بے ہوشی پیدا ہو اس میں یہ امر نافع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کو امر ہوا کہ اپنے نفس کی کاہلی اور پژمردگی و سستی و کثافت کو بذریعہ وضو دور کرے، تاکہ خدا تعالیٰ کے حضور میں کھڑے ہونے کے لائق ہوسکے، کیوںکہ وہ سدا ہو شیار و بیدار ہے۔ چناںچہ وہ فرماتا ہے: {لَا تَاخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّلَانَوْمٌط}1 یعنی خدا تعالیٰ کو غفلت و نیند نہیں پکڑتی۔ پس غافل و کاہل اس کے حضور میں کھڑے ہونے کے قابل نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ نشہ و مستی کی حالت میں نماز پڑھنا مشروع نہیں، چناںچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے: {لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکٰرٰی}2 نماز کے نزدیک نہ جاؤ جب کہ تم نشہ کی حالت میں ہو۔ کسی نشہ باز کو کسی ظاہری حاکم وبادشاہ کے دربار میں بحالتِ نشہ جانے کی اجازت نہیں دی جاتی، پس جب کہ نشہ باز و شرابی بحالتِ نشہ و غفلت ایک دنیاوی حاکم کے دربار میں باریاب نہیں ہوسکتا، تو جو شخص نشہ باز و غافل جیسے حالت بنائے ہوئے ہو اس کو احکم الحاکمین کے دربار میں کب شرف باریابی عطا ہوسکتا ہے۔ نشہ کی حالت میں نماز اسی لیے ممنوع ہوئی کہ نشہ باز کو بحالتِ نشہ معلوم نہیں ہوتا کہ منہ سے کیا کہہ رہا ہے اور اس کے دل میں کیا گزر رہا ہے۔ چناںچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے: {حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ}3