احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بہت راز ہیں، از ان جملہ چند درج ذیل ہیں: ۱۔ اس مدت کے معین کرنے کی یہ وجہ ہے کہ اتنی مدت میں خواہ مخواہ نفس کو جماع کا شوق پیدا ہوتا ہے اور اگر انسان ماؤف نہ ہو تو اس کے چھوڑنے سے ضرر پہنچتا ہے۔ ۲۔ یہ مدت سال کا ایک ثلث حصہ ہے اور نصف سے کم کا انضباط ثلث کے ساتھ ہوا کرتا ہے اور نصف کو مدتِ کثیرہ شمار کیا جاتا ہے۔ ۳۔ اگر ایلاء کی مدت زیادہ ہوتی تو مرد لاپروا ہو کر عورت کے نان و نفقہ کو ٹال دیتا اور یہ امر عورت کے لیے سخت مضر ہے کہ وہ کہاں سے کھاتی اور کہاں سے پہنتی اور کہاں رہتی۔ ۴۔ ممکن ہے کہ اس ایلاء سے پہلے مرد نے عورت سے جماع کرلیا ہو جس سے احتمالِ حمل ہوسکتا ہے، اندریں صورت براء تِ رحم چار ماہ میں باکمل وجوہ معلوم ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متوفی عنہا زوجہا کی عدت چار ماہ دس دن مقرر ہوئی ہے جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے، پس اس مدت میں باکمل وجہ اور پورے طور سے ہر کسی کو شناختِ حمل ہوسکتی ہے، پھر اگر معلوم ہوا اور مرد رجوع بھی نہ کرے تو پھر عدت وضعِ حمل تک ہے۔ ۵۔ خدا تعالیٰ نے جو کہ دانائے راز نہاں و آشکارا ہے ایلاء کی مدت چار ماہ مقرر کرنے میں یہ راز رکھا ہے کہ بالعموم فطرتی طور پر تندرست جوان عورت کو چار ماہ سے زیادہ اپنے مرد کی جدائی گراں و ناگوار گزرتی ہے اور وہ غالباً اس مدت تک پھر اپنے مرد کا وصال چاہتی ہے، چنانچہ حضرت جلال الدین سیوطی ؒ تاریخ الخلفاء میں لکھتے ہیں: أخرج ابن جریج قال: أخبرني من أصدقہ: أن عمر ؓ بینما ہو یطوف سمع امرأۃ تقول: یعنی ابنِ جریج کہتے ہیں کہ مجھے خبر دی اس شخص نے جس کی بات کو میں سچ جانتا ہوں کہ حضرت عمر ؓ ایک رات مدینہ منورہ کی گلیوں میںاپنی تطاول ھذا اللیل واسود جانبہ وأرقني أن لا خلیل ألاعبہ فلولا حذار اللّٰہ لا شيء مثلہ لزحزح من ھذا السریر جوانبہ فقال عمر: ما لک؟ قالت: أغزیت زوجي منذ أشھر وقد اشتقت إلیہ۔ قال: أردت سوئا؟ قالت: معاذ اللّٰہ۔ قال: فاملکي علیک نفسک، فإنما ھو البرید إلیہ، فبعث إلیہ، ثم دخل علی حفصۃ فقال: إني سائلک عن أمر قد أھمني فأفرجیہ عني: کم