احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تک لہو (خون) کی پھٹکی ہوتی ہے، پھر اس کے بعد چالیس دن میں بچہ تیار ہوتا ہے اور یہ پورے چار مہینے ہوتے ہیں، پھر اس مدت کے بعد چوتھے طہر میں روح پھونکی جاتی ہے، جس کا اندازہ دس دن ہے کہ اگر حمل ہو تو حرکت سے ظاہر ہوسکے اور یہ مصلحت عدت کی اس مدتِ خاص کی ہے۔ الغرض شارع نے بیوہ کی عدت چارمہینے اور دس دن اس لیے مقرر کی ہے کہ چار مہینے کے تین چلے ہوتے ہیں اور اس مدت کے اندر جنین میں جان پڑتی ہے اور حرکت کرنے لگتا ہے اور دس روز اس پر اور زیادہ کیے گئے، تاکہ وہ حرکت پورے طور پر ظاہر ہوجاوے اور نیز یہ مدت حملِ معتاد کی نصف ہے، جس میں حمل پورے طور پر ایسا ظاہر ہوجاتا ہے کہ ہر شخص دیکھ کر جان سکتا ہے۔ اور مطلقہ کی عدت میں بچہ کے محسوس ہونے کا لحاظ نہیں کیا گیا بلکہ اس کی عدت حیض سے مقرر کی گئی اور اس بیوہ کی چار مہینے دس دن سے مقرر کی گئی۔ وجہ فرق یہ ہے کہ مطلقہ میں تو حق دار یعنی خاوند زندہ ہوتا ہے جو نسب کی مصلحت اور قرائن کو جانتا ہے، پس ممکن ہے کہ عورت کو اس چیز کے ساتھ عدت شمار کرنے کا حکم دیا جاوے جس کا علم اس کے ساتھ خاص ہے اور خاوند اس کو امین سمجھے، اور بیوہ کے واقعہ میں خاوند موجود نہیں ہوتا اور دوسرا شخص اس کا باطنی حال ایسا معلوم نہیں کرسکتا جس طرح خاوند پہچان سکتا تھا، پس ضروری ہوا کہ اس کی عدت ایسی مقرر کی جاوے جس کے معلوم کرنے میں قریب و بعید سب برابر ہوں اور وہ بچہ کے محسوس ہونے کی مدت ہے۔ اور اس کے فرق سے عدتِ مطلقہ میں یہ شبہ نہ کیا جاوے کہ جب وہاں حمل کا ظاہر و بین طور پر معلوم کرنا نہیں ہے بلکہ محض رحم کا خالی ہونا ہے، تو وہ ایک حیض سے بھی معلوم ہوسکتا ہے۔ جواب یہ ہے کہ صرف براء تِ رحم مقصود نہیں اگرچہ براء تِ رحم بھی عدت کے بعض ضروری مقاصد میں سے ہے بلکہ عدت میں متعدد حکمتیں ہیں اور وہ جب معلوم ہوسکتی ہیں کہ جب کہ وہ حقوق معلوم ہوں جو اس میں ملحوظ ہیں۔ چناں چہ عدت میں ایک: تو خدا تعالیٰ کا حق ہے اور وہ اس کے حکم کی اطاعت اور اس کی طلبِ رضا ہے اور دوسرا: طلاق دینے والے خاوند کا حق ہے او ریہ حق اس کے رجوع کرنے کے لیے لمبا زمانہ ٹھہرایا، خواہ رجعت سے یا نکاحِ جدید سے۔ تیسرا حق: زوجہ کا ہے اور یہ حق اس کا استحقاقِ نفقہ و سکونت خاوند پر ہے، جب تک عورت عدت میں ہو۔ اور چوتھا حق: بچہ کا ہے یہ حق بچہ کے ثبوتِ نسب کی احتیاط کے لیے ہے تاکہ اس کا نسب دوسرے کے ساتھ نہ مل جائے۔ پانچواں حق: دوسرے خاوند کا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ اپنا پانی دوسرے کی کھیتی کو دے کر ضائع نہ کرے۔ اور شارع ؑ نے ہر ایک کے مناسب خاص خاص احکام بھی مرتب فرمائے، چناں چہ رعایت حقِ خاوند میں یہ امر قرار پایا ہے کہ زوجہ گھر سے باہر نہ جاوے اور نہ خاوند اس کو باہر نکالے، اور نیز یہ حق ٹھہرایا ہے کہ عدت کے اندر اگر زوجہ سے طلاق