احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی۔ جب آپ بیوہ ہوگئیں تو حضرت عمر ؓ نے پہلے حضرت عثمان ؓ کو اور پھر حضرت ابوبکر ؓ کو آپ سے نکاح کرنے کے لیے کہا، مگر ان دونوں نے انکار کیا۔ اس کے بعد آپ کا نکاح رسولِ اکرم ﷺ سے ہوا۔ حضرت عمر ؓ کا خود حضرت عثمان ؓ اور حضرت ابوبکر ؓ کو کہنا بتاتا ہے کہ مسلمانوں کو کس قدر مشکلات تھیں۔ اس کے بعد ام المؤمنین امِ سلمہ ؓ ہیں، وہ بھی اپنے خاوند کے ساتھ اس پہلے گروہ میں شامل تھیں جو سب سے اوّل کفار کے ظلم سے تنگ آ کر حبش کو ہجرت کر گیا۔ ام سلمہ کے خاوند کی موت کا موجب ایک زخم ہوا جو ان کو ایک لڑائی میں لگا تھا۔ ام سلمہ کے بعد ام حبیبہ ؓ سے آپ نے نکاح کیا، یہ قریش کے مشہور سردار ابوسفیان کی لڑکی تھیں۔ آپ مع اپنے خاوند کے اس دوسرے گروہ میں شامل تھیں جو ہجرت کرکے حبش کو چلا گیا تھا۔ وہاں ان کا خاوند عیسائی ہوگیا اور تھوڑے روز بعد مر گیا، لیکن وہ اسلام پر قائم رہیں اور آں حضرت ﷺ کے نکاح میں آئیں۔ اس کے بعد آپ کا نکاح ام المؤمنین زینب بنت جحش سے ہوا، ان کو زید بن حارث نے بوجہ نا اتفاقی طلاق دے دی تھی، اس کے بعد آں حضرت ﷺ کے نکاح میں آئیں۔ اس کے بعد ام المؤمنین زینب بنت خزیمہ سے نکاح ہوا، جو ام المساکین کے نام سے مشہور تھیں، آپ کا خاوند اُحد کی جنگ میں شہید ہوگیا تھا، آپ خود بھی نکاح سے دو تین ماہ بعد ہی حضور ﷺ کے رو برو فوت ہوگئیں۔ ام المؤمنین میمونہ ؓ بھی مہاجرات میں سے تھیں اور بیوہ ہونے کے بعد آں حضرت ﷺ کے نکاح میں آئیں۔ اب اس فہرست سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جس قدر عورتیں آپ کی ازواجِ مطہرات میں شامل ہوئیں وہ سب کی سب ایسی تھیں جو ابتدا ہی میں مسلمان ہوئیں تھیں اور آخر کفار کے ہاتھ سے طرح طرح کے دُکھ اُٹھا کر جلا وطنی اختیار کرکے دوسرے ملکوں میں انھوں نے پناہ لی اور وہ سب کی سب قریش کے شریف خاندانوں سے تھیں۔ ایک طرف تو وہ اپنے گھر بار کو چھوڑ چکی تھیں اور اپنی جائیداد اور آسایش کو قربان کرکے صرف دین کی خاطر جلا وطنی قبول کی تھی۔ اب دوسری مصیبت یہ آ پڑی کہ ان کے خاوند جو محنت و مشقت کرکے ان کو کھلاتے تھے وہ بھی مرگئے یا جنگوں میں شہید ہوگئے۔ اس بے کسی کی حالت میں ان کی تکالیف کا اندازہ کون کرسکتا ہے۔ کیاجائز تھا کہ ان عورتوں کو کفار کی طرف واپس بھیج دیا جاتا تاکہ وہ طرح طرح کے دکھ دے کر ان کو مار ڈالتے، یا کیا درست تھا کہ ان کو بغیر خبر گیری کے چھوڑ دیا جاتا تا کہ وہ خستہ حال ہو کر تباہ ہوجائیں، نہیں نہیں! اسلام یہ نہیں چاہتا کہ ان لوگوں کو جنھوں نے مذہب اور دین کی خاطر طرح طرح کے دُکھ اُٹھائے تھے، یوں ذلت اور کس مپرسی کی حالت میں تباہ ہونے کے لیے چھوڑ دیا جاتا یا خود اپنے ہاتھوں سے دشمنوں کے حوالہ کردیا جاتا، تاکہ جو ظلم چاہیں ان پر کریں۔ اس بے کسی کی حالت پر رحم کھا کر ہی رسول اللہ ﷺ نے ان کو اپنی