احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ایسی پیدا ہوجاوے کہ جس کے سبب سے عورت مرد کے لیے بطورِ رفیق کے نہ رہے، یا اس سے اس کو وہ خوشی حاصل نہ ہوسکے جو ایسے رفیق سے ہونا چاہیے، تو ان صورتوںمیں بھی مرد کو دوسرا نکاح کرنے کی اجازت ہونا چاہیے، مثلاً: اگر عورت کو کوئی ایسی بیماری لاحق ہوجائے جو اس کو ہمیشہ کے لیے یا بڑے بڑے وقفوں کے لیے ناقابل کردے، یعنی اس امر کے قابل نہ رہنے دے کہ خاوند اس سے تعلقاتِ زنان و شوئی رکھ سکے تو کوئی وجہ نہیں کہ کیوں نکاح کی اصل غرض کو مرد دوسرے نکاح کے ذریعہ سے پورا نہ کرے، جیسا کہ انسانی زندگی کے حالات کا دائرہ وسیع ہے ویسا ہی ان ضروریات کا دائرہ بھی وسیع ہے جو بعض وقت مرد کو دوسرا نکاح کرنے کے لیے مجبور کردیتی ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ ایسی ضروریات اکثر پیدا نہیں ہوتیں مگر جب واقعی وہ ضرورتیں پیدا ہوجائیں اور یہ ضروری ہے کہ ہر انسان کے طبقہ میں وہ کم و بیش پیدا ہوتی رہیں تو سوائے تعددِ ازواج کے اور کوئی ذریعہ ان کے پورا ہونے کا نہیں۔ پس اس علاج کو روکنا بیماریوں کو بڑھانا ہے، اسی طرح تعددِ ازواج اکثر حالات میں طاقتوں کی کمی کا ذریعہ ہوسکتا ہے۔ ۸۔ قدرت نے عورت کو وہ سامان دے ہیں جو مرد کے لیے باعثِ کشش ہیں اور مرد و عورت کے تعلق میں ان فریفتگی اور کشش کے موجبات کی موجودگی ایک نہایت ضروری امر ہے اور صرف اسی صورت میں نکاح با برکت ہوسکتا ہے کہ ایسے سامان کشش عورت میںموجود ہوں اور اگر عورت میں ایسے سامان موجود نہ ہوں یا کسی طرح سے جاتے رہیں تو مرد کا عورت سے وہ تعلق نہیں ہوسکتا۔ پس ایسی صورت میں اگر خاوند کو دوسری شادی کی اجازت نہ دی جائے تو یا تو وہ کوشش کرے گا کہ کسی طرح اس عورت سے نجات حاصل کرلے اور یہ اگر ممکن نہ ہو تو بدکاری میں مبتلا ہوگا اور ناجائز تعلق پیدا کرے گا، کیوںکہ عورت کی رفاقت سے اسے وہ خوشی حاصل نہ ہوسکے گی جس کا حصول فطرتِ انسانی چاہتی ہے، تو ناچار اس خوشی کے حصول کے لیے وہ اور ذریعہ تلاش کرے گا، ان صورتوں کے لیے تعددِ ازواج ہی ایک علاج ہے اور اسی ذریعہ سے ایک گھرانا خوش حال ہوسکتا ہے۔ ۹۔ تعددِ ازواج کے روکنے سے بعض اوقات نکاح کی تیسری غرض یعنی بقائے نسلِ انسانی حاصل نہیں ہوسکتی، مثلاً اگر عورت بانجھ ہو اور اس کا عقم ناقابلِ علاج ہو تو تعددِ ازواج کی ممانعت کی صورت میں قطعِ نسل لازم آئے گا۔ یہ بیماری عورتوں میں پائی جاتی ہے اور سوائے تعددِ ازواج اور کوئی راہ نہیں جس سے یہ کمی پوری ہوسکے۔ ایسی صورت میں عورت کو طلاق دینے کی کوئی وجہ موجود نہیں اور ممکن ہے کہ عورت و مرد میں ایسی محبت بھی ہو کہ وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوسکتے ہوں۔ اس بقائے نسل کا ذریعہ صرف یہی ہے کہ ایسی صورتوں میں مرد کو نکاحِ ثانی کی اجازت دی جائے۔ علاوہ ازیں اور بھی بہت وجوہ ہیں جو تعددِ ازواج کی ضرورت کو ثابت کرتے ہیں اور ان سب کو تفصیل سے بیان کرنے کی یہاں