(۳)بیر بضوعہ
شامی دروازے سے باہر نکل کر دروازے کے متصل ’’باغ جمل اللیل‘‘میں ہے اس میں بھی حضور ﷺ نے اپنا لعاب ڈالا ہے اور برکت کی دعا فرمائی ہے حضور ﷺ کے زمانے میں جب کوئی بیمار ہوتا تھا تو لوگ اس کو اس کنویں کے پانی سے غسل دیتے تھے اللہ تعالی شفاء عطا فرما دیتے تھے ۔
(۴)بیر بصہ
قبا کے راستے میں بقیع کے متصل ہے ایک دفعہ رسول اللہﷺ حجرت ابو سعید خدری ؓ کے پاس تشریف لائے تھے تو اس کنویں پر آپ ﷺ نے اپنا سر مبارک دھویا تھا اور غسل فرمایا تھا اس جگہ دو کنویں ہیں ایک چھوٹا اور ایک بڑا اس میں اختلاف ہے کہ بیر بصہ کون سا ہے صحیح یہ ہے کہ بڑا ہے مناسب یہ ہے کہ دونوں سے تبرک حاصل کیا جائے ۔
(۵)بیر حاء
باب مجیدی کے سامنے شمالی فصیل سے باہر ہے یہ ابو طلحہ ؓ کا باغ تھا رسول اللہ ﷺ اکثر اس جگہ جلوہ افروز ہوتے تھے اور اس کا پانی پیتے تھے جب آیۃ شریفہ ؎۱’’لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون ‘‘نازل ہوئی تو حضرت ابو طلحہ نے دربار رسالت ﷺ میں آکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺمجھے سب سے زیادہ ’’بیر حاء ‘‘محبوب ہے لہذا یہ خدا کیلئے صدقہ ہے جہاں آپ ﷺ چاہیں صرف کریں حضور ﷺ نے مشورہ دیا کہ اس کو اپنے اقارب میں صرف کر دو یہ کنواں مربع ہے اس وقت باغ نہیں ہے اس وقت یہ کنواں ایک مکان کے گوشہ میں آیا ہوا ہے جس کے پاس زمین کا کچھ حصہ خالی پڑا ہوا ہے ۔
(۶)بیر عہن
عوالی میں مسجد قبا سے مشرق میں مسجد شمس کے قریب ہے اس سے بھی حضور ﷺ نے وضو کیا ہے اس کا پانی شور ہے اس کو بیر الیسیرہ بھی کہتے ہیں ۔
(۷)بیر رومہ
مدینہ منورہ کے شمال وغرب میں ’’وادی عقیق‘‘کے کنارے پر جنگل میں مدینہ منورہ سے تقریبا تین میل کے فاصلے پر ہے یہ کنواں ایک یہودی کا تھا اور اس کا پانی بہت شیرین اور صاف تھا یہودی اس کنویں کا پانی فروخت کرتا تھا مسلمانوں کو پانی کی بہت تکلیف تھا رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو اس کے خریدنے کی ترغیب دی تو حضرت عثمان ؓ نے نصف کنواں اپنے مال سے بارہ ہزار درہم کے بدلے خرید کر مسلمانوں پر وقف کر دیا اور یہودی سے کہا کہ کہو تو میں اپنے نصف پر گھیڑی لگالوںاور کہوتو باری مقرر کر لوں ۔یہودی نے اسی کومنظور کیا کہ ایک روز