ہے ۔
مسئلہ:آب زمزم سے تبرکا غسل اور وضو جائز ہے ۔
مسئلہ:کسی ناپاک چیز کو آب زمزم سے نہ دھویا جائے کپڑا ہو یا اور کوئی ناپاک چیز ہو اور جنبی کو اس سے غسل بھی نہ کرنا چاہئے (شرح؎۱ للباب)لیکن در مختار اور رد مختار سے معلوم ہوتا ہے کہ آب زمزم سے رفع حدث (خواہ حدث اصغر ہو یا حدثاکبر)
بلا کراہت جائز ہے اور ناپاکی کو دور کرنا مکروہ ہے ۔
مسئلہ: آب زمزم سے استنجاء کرنا مکروہ ہے اور بعض علماء نے حرام کہا ہے اور نقل کیا گیا ہے کہ بعض لوگوں نے آب زمزم سے استنجاء کیا تو ان کو بواسیر ہو گئی۔
مسئلہ:آب زمزم کو دوسرے شہروں کی طرف تبرکا لے جانا اور لوگوں کو پلانا مستحب ہے اور مریضوں پر ڈالنا بھی جائز ہے ۔
مسئلہ:زمزم کا پانی کنستریوں یا زمزمیوںمیں بھر ا ہوا حاجی کے ساتھ ہے اور دوسرا پانی وضو اور غسل کیلئے موجود نہیں تو آب زمزم سے وضو اور غسل واجب ہے تیمم جائز نہیں بعض فقھاء نے یہ حیلہ لکھا ہے کہ اگر آب زمزم ساتھ ہے اور دوسرا پانی موجود نہیں تو اس کو کسی دوسرے شخص کو ہبہ کردے اور دوسرا شخص اس کو وضوء کیلئے نہ دے اور اتنا فرق گلاب وغیرہ ملا دے کہ زمزم پر غالب آجائے اور ماء مطلق نہ رہے مگر حیلہ کرنا بہتر نہیں قاضی خان وغیرہ نے اس کو در کیا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
؎۱۔ولا یستعمل الا علی شیء طاھر فلا ینبغی ان یغسل بہ ثوب نجس ولا محدث ولا فی مکان نجس ویکرہ الاستنجاء بہ اھ لباب مع الشرح وفی میاہ الدر ویرفع الحدث بماء زمزم بلا کراہۃ وعن احمد یکرہ و فیہ فی آخر کتاب الحج انہ یکرہ الاستنجاء بماء زمزم ولا اغتسال اھ فالستفید منہ ان نفی الکراہۃ خاص فی رفع الحدث بکاف الخبث ۔ رد المختار وفی السعایۃ ولیعلم ان میاہ الابار کلھا متساویۃ فی جواز الطھارۃ بھا بلان کراہۃ حتیبیر زمزم عند الجمہور فانہ یجوز الوضوء والغسل بھا بلا کراہۃ عندنا اھ سعید احمد غفر لہ۔
مسئلہ:چاہ زمزم مسجد کے اند ر ہے اور اس کے چاروں طرف کی زمین مسجد ہے اس لئے اس میں وضو یا غسل جنابت کرنا جائز نہیں اسی طرح تھوکنا ،ناک کی ریزش ڈالنا یا جنابت کی ضالت میں داخل ہونا بھی جائز نہیں ۔
مسئلہ:آب زمزم لانا جائز ہے ۔
مسجد حرام میں آب زمزم کی خرید وفروخت
آب زمزم کی خرید وفروخت جائز ہے لیکن مسجد میں خرید وگروخت جائز نہیں اسی