احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کان اور سر اور کنپٹیاں سب چادر کے پردہ میں رہیں اور اپنے پیروں کو زمین پر (ناچنے والیوں کی طرح) نہ ماریں، (یہ وہ تدبیر ہے کہ جس کی پابندی ٹھوکر سے بچا سکتی ہے) اور (دوسرا طریق بچنے کے لیے یہ ہے کہ) خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرو۔ (اور اس سے دُعا کرو تاکہ ٹھوکر سے بچاوے اور لغزشوں سے نجات دے) زنا کے قریب مت جاؤ یعنی ایسی تقریبوں سے دور رہو جن سے یہ خیال بھی دل میں پیدا ہوسکتا ہے اور ان راہوں کو اختیار نہ کرو جن سے اس گناہ کے وقوع کا اندیشہ ہو۔ زنا کرنا نہایت درجہ کی بے حیائی ہے۔ زنا کی راہ بہت بری ہے، یعنی منزلِ مقصود سے روکتی ہے اور تمہاری اُخروی منزل کے لیے سخت خطرناک ہے۔ اور جس کو نکاح میسر نہ آوے چاہیے کہ وہ اپنے تئیں دوسرے طریقوں سے بچاوے، مثلاً: روزہ رکھے یا کم کھاوے یا اپنی طاقتوں سے تن آزار کام لے اور ان لوگوں نے یہ طریق بھی نہ نکالے تھے کہ وہ ہمیشہ عمدہ نکاح وغیرہ سے دست بردار رہے یا خوجے (مخنث) بن گئے یا اور کسی طریق سے انھوںنے رہبانیت اختیار کی، مگر ہم نے ان پر یہ حکم فرض نہیں کیا اور پھر وہ ان بدعتوں کو بھی پورے طور پر نباہ نہ سکے خدا تعالیٰ کے قول کے عموم میں یہ مضمون کہ ہمارا یہ حکم نہیں کہ لوگ خوجے بنیں، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ اگر خدا کا حکم ہوتا اور سب لوگ اس پر عمل کرتے ہوتے تو اس صورت میں بنی آدم کی قطع نسل ہو کر کبھی کا دنیا کا خاتمہ ہوچکتا اور نیز اگر اس طرح پر عفت حاصل کرنا ہو کہ عضو مردمی کو کاٹ دیا جاوے، یہ در پردہ اس صانع پر اعتراض ہے جس نے وہ عضو بنایا اور نیز ثواب کا تمام مدار تو اس بات پر ہے کہ قوت موجود ہو اور پھر انسان خدا تعالیٰ کا خوف کرکے ممانعت کی جگہ اس قوت کے جذبات کا مقابلہ کرکے اور اجازت کی جگہ اس کے منافع سے فائدہ اُٹھا کر دو طور کا ثواب حاصل کرے اور جس میں بچہ کی طرح وہ قوت ہی نہیں رہی اس کو ثواب کیا ملے گا۔ کیا بچہ کو عفت کا ثواب مل سکتا ہے؟ ان آیات میں مع دیگر نصوص کے خدا تعالیٰ نے خلقِ احصان یعنی عفت حاصل کرنے کے لیے صرف اعلیٰ تعلیم ہی نہیں فرمائی بلکہ انسان کو پاک دامن رہنے کے لیے کافی علاج بھی بتلا دیے، یعنی یہ کہ اپنی آنکھوں کو نامحرم پر نظر ڈالنے سے بچانا، کانوں کو نامحرموں کی آواز سننے سے بچانا، نامحرموں کے قصے نہ سننا اور ایسی تمام تقریبوں سے جن میں کہ اس فعلِ بد کا اندیشہ ہو اپنے تئیں بچانا اور اگر نکاح نہ ہوسکے تو روزہ رکھنا وغیرہ۔ یہ اعلیٰ تعلیم ان سب تدبیروں کے ساتھ جو قرآن شریف نے بیان فرمائی ہیں صرف اسلام ہی سے خاص ہے اور اس جگہ ایک نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے اور وہ یہ ہے کہ چوںکہ انسان کی وہ طبعی حالت جو شہوت کا منبع ہے جس سے انسان بغیر کسی کامل تغیر کے الگ نہیں ہوسکتا ایسی ہے کہ اس کے جذبات محل اور موقع پا کر جوش مارنے سے رہ نہیں سکتے یا اگر باز بھی رہ سکے تاہم سخت خطرہ میں پڑ جاتے ہیں، اس لیے خدا تعالیٰ نے ہمیںیہ تعلیم نہیں دی کہ ہم نامحرم عورتوں کو بلا تکلف دیکھ تو لیا کریں اور ان کی تمام زینتوں پر نظر بھی ڈال