احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۳۔ مہر کے سبب سے نکاح و زنا میں امتیاز ہوجاتا ہے، چناںچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے: {اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَط}1 بذریعہ اپنے مالوں کے تم اپنی عفت کی حفاظت کرنے والے بنو اور صرف مستی نکالنے والے نہ بنو۔ یہی وجہ ہے کہ رسومِ سلف میں سے آں حضرت ﷺ نے وجوبِ مہر کو بدستور باقی رکھا۔ تعیینِ ولیمہ کی وجہ: ولیمہ یعنی نکاح کے بعد جو عام لوگوں کو روٹی کھلائی جاتی ہے۔ اس کے تقرر میں بہت سی مصلحتیں ہیں: ۱۔ اس سے نکاح کی اور اس بات کی اشاعت اور شہرت ہوتی ہے کہ بیوی سے دخول کرنا چاہتا ہے۔ یہ اشاعت ضروری ہے تاکہ نسب میں کسی کو وہم کرنے کی بھی گنجایش نہ ہو اور نکاح و زنا میں تمیز بادی الرائے میں معلوم ہوجاوے اور لوگوں کے سامنے اس عورت کے ساتھ جائز تعلق متحقق ہوجاوے۔ ۲۔ اس عورت سے اور اس کے کنبے کے ساتھ بھلائی اور حسنِ سلوک پایا جاتا ہے، کیوںکہ اس کے لیے مال کا خرچ کرنا اور لوگوں کو اس کے لیے جمع کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ خاوند کے نزدیک بیوی کی وقعت اور عزت ہے اور میاں بیوی کے مابین اس قسم کے اُمور الفت قائم کرتے ہیں، خاص کر ان کے اوّل اجتماع میں ضروری ہوتے ہیں۔ ۳۔ ایک جدید نعمت کا حاصل ہونا اظہارِ شکر و سرور و خوشی کا سبب ہے اور مال کے خرچ کرنے پر آدمی کو آمادہ کرتا ہے اور اس خواہش کی پیروی کرنے سے سخاوت کی عادت و خصلت پیدا ہوتی ہے اور بخل کی عادت جاتی رہتی ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے فوائد ہیں۔ سو چوںکہ سیاست مدنیہ و منزلیہ و تہذیب نسل و احسان کے متعلق کافی فوائد اور مصالح ولیمہ میں مودع ہیں، اس لیے آں حضرت ﷺ نے اس کی طرف رغبت اور حرص دلائی اور خود بھی اس کو عمل میں لائے۔ اور آں حضرت ﷺ نے ولیمہ کی بھی کوئی حد مقرر نہیں کی مگر اوسط درجہ کی حد بکری ہے اور آپ نے حضرت صفیہ ؓ کے ولیمہ میں لوگوں کو ملیدہ کھلایا تھا اور آپ نے بعض اپنی بیویوں کا ولیمہ دو مد ۔َجو سے بھی کیا ہے اور فرمایا: إذا دعي أحدکم إلی الولیمۃ فلیأتھا۔