احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں ہوں۔ ۲۔ جسمی سجدہ بے کار اور لغو نہیں۔ اوّل تو یہ امر مسلّم ہے کہ خدا جیسا کہ روح کو پیدا کرنے والا ہے ایسا ہی وہ جسم کا خالق ہے اور دونوں پر اس کا حقِ خالقیت ہے۔ علاوہ اس کے جسم اور روح ایک دوسرے کا اثر قبول کرتے ہیں۔ بعض وقت جسم کا سجدہ روح کے سجدے کا محرک ہوجاتا ہے اور بعض وقت روح بھی جسم کے اندر سجدہ کی حالت پیدا کردیتی ہے، کیوںکہ جسم اور روح دونوں باہم مزایا مقابلہ کی طرح ہیں۔ مثلاً: ایک شخص جب محض تکلف سے اپنے جسم میں ہنسنے کی صورت بناتا ہے تو ایسے اوقات اس کو سچی ہنسی بھی آجاتی ہے جو کہ روح کے انبساط سے متعلق ہے، ایسا ہی جب ایک شخص تکلف سے اپنے جسم میں یعنی آنکھوں میں رونے کی صورت بناتا ہے تو ایسے اوقات حقیقت میں بھی رونا آجاتا ہے جو کہ روح کے درد اور رقت سے متعلق ہے۔ پس جب یہ ثابت ہوچکا کہ عبادت کی دوسری قسم میں یعنی تذلل وانکسار میں جسمانی افعال کا روح پر اثر پڑتا ہے، پس ایسا ہی عبادت کی دوسری قسم میں یعنی محبت و ایثار میں بھی ان ہی تاثیرات کا جسم اور روح میں باہم تأثر اور تاثیر ہے۔ ۳۔ محبت کے عالم میں انسانی روح ہر وقت اپنے محبوب کے گرد گھومتی ہے اور اس کے آستانہ کو بوسہ دیتی ہے، پس اسی کے مقابل خانہ کعبہ جسمانی طور پر محبانِ صادق کے لیے ایک نمونہ دیا گیا ہے اور اس کی نسبت فرمایا گیا ہے کہ دیکھو یہ میرا گھر ہے اور یہ حجر ِاسود میرے آستانہ کا پتھر ہے، اور ایسا حکم اس لیے دیا تاکہ انسان جسمانی طور پر بھی اپنے ولولۂ عشق اور محبت کو ظاہر کرے۔ سو حج کرنے والے حج کے مقام پر جسمانی طور پر بھی صورت بنا کر اس گھر کے گرد گھومتے ہیں کہ گویا خدا کی محبت میں دیوانہ اور مست ہیں، زینت دور کردیتے ہیں، سر منڈوا دیتے ہیں اور مجذوبوں کی شکل بنا کر اس کے گھر کے گرد عاشقانہ طواف کردیتے ہیں اور یہ جسمانی ولولہ، روحانی تپش اور محبت کو پیدا کردیتا ہے اور اسی حکمت کے لیے جسم اس گھر کے گرد طواف کرتا ہے اور سنگِ آستانہ کو چومتا ہے۔ ۴۔ اکثر آدمی اپنے پروردگار کے شوق میں پڑتے ہیں، اس وقت ان کو ضرورت ہوتی ہے کہ کسی طرح اپنا شوق پورا کریں تو سوائے حج کے اس کو اور کوئی ایسی چیز نہیں ملتی۔ ۵۔ ہر ملت اور سلطنت کو ہمیشہ ایک دربار کی ضرورت ہوتی ہے، جس سے سب لوگوں میں باہم جان پہچان بھی ہو اور ایک دوسرے سے مستفید بھی ہوں اور اس ملت یا سلطنت کے شعائر کی تعظیم بھی کریں۔ ایسا ہی مذہب کو حج کی ضرورت ہے تاکہ ایک دوسرے سے ملیں جلیں اور ہر ایک دوسرے سے ان فوائد کو حاصل کرسکیں جو ان کو پہلے سے حاصل نہیں ہیں، اس لیے کہ مقاصد باہمی مصاحبت اور ایک دوسرے کے ملنے سے ہی حاصل ہوا کرتے ہیں اور جس سے شعائرِ دین کی