احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
قربان بالضم، وھو ما یتقرب بہ إلی اللّٰہ تعالی، یقال: قربت للّٰہ قربانا۔ یعنی قربان اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ساتھ خدا تعالیٰ کا قرب ڈھونڈتا ہے۔ چناںچہ کہتے ہیں: قربت اللّٰہ قربانا۔ چوںکہ انسان قربانی سے قربِ الٰہی کا طالب ہوتا ہے اس لیے اس فعل کا نام بھی قربانی ہوا۔ ۱۔ دراصل قربانی کیا ہے ایک تصویری زبان میں تعلیم ہے جسے جاہل اور عالم سب پڑھ سکتے ہیں۔ وہ تعلیم یہ ہے کہ خدا کسی کے خون اور گوشت کا بھوکا نہیں وہ تو {وَھُوَ یُطْعِمُ وَلَا یُطْعَمُط}1 ہے، ایسا پاک اور عظیم الشان نہ تو کھالوں کامحتاج ہے، نہ گوشت کے چڑھاوے کا، بلکہ وہ تمھیں سکھانا چاہتا ہے کہ تم بھی خدا کے حضور میں اسی طرح قربان ہوجاؤ اور یہ بھی تمہارا ہی قربان ہونا ہے کہ اپنے بدلے اپنا قیمتی پیارا جانور قربان کردو۔ ۲۔ جو لوگ قربانی کوخلافِ عقل کہتے ہیں وہ سن لیںکہ ۔ُکل دنیا میں قربانی کا رواج ہے اور قوموں کی تاریخ پر نظر کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ادنیٰ چیز اعلیٰ کے بدلہ میں قربان کی جاتی ہے، یہ سلسلہ چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی چیزوں میں پایا جاتا ہے۔ ہم بچے تھے تو یہ بات سنی تھی کہ کسی کو سانپ زہریلا کاٹے تو وہ انگلی کاٹ دی جائے، تاکہ کل جسم زہریلے اثر سے محفوظ رہے۔ گویا انگلی تمام جسم کے لیے قربان کی گئی ہے۔ ۳۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا کوئی دوست آجائے جو کچھ ہمارے پاس ہو اسی کی خوشی کے لیے قربان کرنا پڑتا ہے، گھی، آٹا، گوشت وغیرہ قیمتی اشیا اس پیارے کے سامنے کوئی ہستی نہیں رکھتیں۔ ۴۔ اس سے زیادہ عزیز ہو تو مرغے مرغیاں حتیٰ کہ بھیڑیں اور بکرے قربان کیے جاتے ہیں، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر گائے اور اونٹ بھی عزیز مہمان کے لیے قربان کردیے جاتے ہیں۔ ۵۔ طب میں دیکھا گیا ہے کہ وہ قومیں جو اس کو جائز نہیں سمجھتیں کہ کوئی جاندار قتل ہو وہ بھی اپنے زخموںکے سینکڑوں کیڑوں کو مار کر اپنی جان پر قربان کردیتے ہیں۔ اس سے اوپر چلو تو ہم دیکھتے ہیں کہ ادنیٰ لوگوں کو اعلیٰ کے لیے قربان کیا جاتا ہے، مثلاً بھنگی ہیں، گو تمام قوموں کی عید ہی کا دن ہو مگر ان بے چاروں کے سپرد وہی کام ہوتا ہے، بلکہ ایسے ایام میں ان کو زیادہ تاکید ہوتی ہے کہ لوگوں کی آسایش و آرام کی خاطر کوئی گندگی کسی گزر گاہ میں نہ رہنے دیں، گویا ادنیٰ کی خوشی اعلیٰ کی خوشی پر قربان ہوئی۔ ۶۔ بعض ہندو گئو رکھشا بڑے زور سے کرتے ہیں، لداخ کے ملک میں تو دودھ تک نہیں پیتے، کیوںکہ یہ بچھڑوں کا حق ہے