احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۳۔ علاوہ بریں والد خیر اندیش اگر سفر کو جاتا ہے تو فرزند ولی عہد کو اس کی مادرِ مہربان کے حوالہ کرتا ہے اس کی والدہ کی سوکن کو نہیں دیتا، اگر یہ ہے تو پھر مناسب یوں ہے کہ تن خاکی کو حوالہ خاک کیا جائے، آتش کو نہ دیا جاوے۔ بالجملہ روح جسمِ خاکی کے حق میں مربی ہے، چناںچہ اس کی تربیت اور نگرانی ظاہر ہے اور یہ کرۂ خاکی اس کے حق میں بمنزلہ مادرِ مہربان ہے، چناںچہ اس کا اس سے پیدا ہونا خود اس امر پر شاہد ہے، اس صورت میں در صورتِ سفر روح جو وقتِ انتقال بجانبِ عالمِ علوی پیش آتا ہے اگر اس جسمِ خاکی کو حوالہ آتش کریں اور زمین میں دفن نہ کریں تو ایسا ہے جیسا کہ اپنے فرزند کو اس کی مائدر یعنی اس کی والدہ کی سوکن کے حوالہ کیا جاوے اور ماں کو نہ دیں۔ ۴۔ اگر کسی کے کبوتروں میں کسی کا کبوتر بے چرائے آ ملے یا کسی کے ریوڑ میں کسی کی بکری اسی طرح آ ملے تو اس کو یوں مناسب ہے کہ اوروں کا حق جدا کرکے ان کو دے دے۔ پھر غیروں کو یہ نہیں پہنچتا کہ اس کے کبوتروں اور ریوڑ کو ضبط کرکے لے جائے اور اس کی غیبت میں ان سب کو ہلاک کردے، مگر یہ ہے تو پھر یوں مناسب ہے کہ اس جسمِ خاکی کو زمین میں دفن کردیں، تاکہ آب و آتش و ہوا کو اس سے جدا کرکے چھوڑ دے، تاکہ وہ سب اپنے اپنے مقام کو چلی جائیں یا کرۂ ہوا و آب و آتش اپنے اپنے ہم جنس کو اپنی اپنی طرف کھینچ لیں۔ یعنی حرکتِ خاک و آب و بادِ آتش اپنے اپنے مقامات کی طرف جو طبعی ہے دو حال سے خالی نہیں: یا یہ خود حرکت کرتی ہوں، جیسے اکثر علمائے یونان کہتے ہیں، یا ادھر سے کششِ اتصال ہو، جیسے حکمائے فرنگ کا خیال ہے۔ بہرحال مناسب یوں ہے کہ جسم کو حوالہ زمین کے کردیں۔ حوالۂ آتش نہ کریں، کیوں کہ یہ تنِ خاکی سر سے پا تک خاک ہے۔ البتہ رطوبت اور بادی اور گرمی سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ کچھ اجزا آبی اور ہوائی اور آتشی بھی اس میں آ ملے ہیں، اس نے کسی کو چرایا نہیں اور اگر زمین میں دفن کردیں گے تو وہ شیرازہ ترکیب کھول کر سب کو جدا کردے گی اور پھر وہ اجزا خود اپنے مقام کو چلے جائیں گے یا ان کے اصول ان کو جذب کرلیں گے اور اگر آگ کے سپرد کیا تو وہ سب کا ستیاناس کرکے ہٹے گی۔ ۵۔ محبت باہمی اقربا تو ظاہر ہے مگر غور کرو تو بمقابلہ اور انواع و اجناس کے تمام بنی آدم باہمی قرابتی ہیں، اور کیوں نہ ہوں آخر ایک ماں باپ کی اولاد ہیں اور اس محبتِ باہمی کا یہ نتیجہ ہے کہ ایک دوسرے کا حافظ محافظ رہے۔ جیتے جی کی حفاظت میں تو کچھ کلام ہی نہیں، مرنے کے بعد بھی یوں جی نہیں چاہتا کہ تن مردہ کو اقربا سے علیحدہ کردیں۔ یہی وجہ ہے کہ جدائی کے وقت کس قدر روتے ہیں اور جنازہ اُٹھاتے ہیں تو کیا غل مچتا ہے، اس صورت میں اگر بوجہ مجبوری پاس نہ رہنے دیں تو کیا مقتضائے محبت یہی ہے کہ یوں جلا کر خاک بنادیں؟ نہیں اہلِ محبت سے یہ نہیں ہوسکتا۔ ہاں بمقدور آلایش ظاہری سے