کے درختوں کا کاٹنا اکھاڑنا محرم اور حلال دونوں پر حرام ہے خواہ اس قسم کی درخت کسی کی مملوکہ زمین میں ہو یا غیر مملوک میں ۔البتہ خوشک درخت کا کاٹنا جائز ہے اذخر کا درخت بھی اسی قسم میں داخل ہے اذخر ایک خوشبودار گھاس ہے جو چھت اور قبر کے کام آتی ہے۔
مسئلہ:حرم کی گھاس کاٹنے سے اس کی قیمت واجب ہے ۔
مسئلہ:کماتہ کھنبی جس کو جس کو چھتری بھی کہتے ہیں اور خوشک گھاس اور یا خوشک درخت جوہرانہ ہوسکتا ہے یا ٹوٹاہوا درخیا گھاس اور اذخر خواہ تر ہو یا خوشک کاٹنا جائز ہے۔
مسئلہ:کسی درخت کے پتے توڑنے سے اگر درخت کو نقصان نہ ہو تو پتے توڑنا جائز ہے ورنہ جائز نہیں ۔
مسئلہ:جس قسم میںجزاء واجب ہے اگر وہ درخت کسی کی ملک میں ہے یعنی اس کی زمین میں جما ہو تو دو قیمت واجب ہوں گی ایک حرم کی وجہ سیاور دوسری مالک کو دینی ہوگی اور مالک خود کاٹے گا تو ایک جزاء حرم کی وجہ سے واجب ہوگی ۔
مسئلہ:پھل دار درخت اگرچہ خود روو ہو کاٹنا جائز ہے مگر مملوک میں مالک کی اجازت شرط ہے۔
مسئلہ:اگر خیمہ لگانے یا تنور یا چولھاوغیرہ خودنے سے یا سواری یا خود چلنے سے گھاس یا لکڑی ٹوٹ جائے تو کچھ واجب نہ ہوگا مسئلہ:درخت کی جڑ کا اعتبار ہے اگر جڑ حرم میں ہے تو اور شاخ حل میں ہے تو حرم کا درخت ہے اور اگر جڑ حل میں ہے اور شاخ حرم میں تو حل کا درخت ہے اوراگر آدھی جڑ حل میں اور آدھی حرم میں توبھی حرم ہی شمار ہوگا ۔
مسئلہ: درخت یا گھاس کی قیمت سے غلہ خرید کر صدقہ کردے اور مسکین کو نصف صاع گیہوں جہاں چاھے دیدییا اگر ھدی اس قیمت سے آسکتی ہے تو ھدی دیدے اور ضمان ادا کرنے کے بعد گھاس اور لکڑی خاٹنے والے کی ملک ہوگی اور اس کا استعمال جائز ہوگا لیکن بیچنا مکروہ تحریمی ہے البتہ خریدنے والے کیلئے مکروہ نہیں اگر بیچدیا تو اس کی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے ۔
مسئلہ:حرم کے تر درخت سے مسواک بنانا بھی جائز نہیں ۔
مسئلہ: محرم اور حلال کیلئے حرم کی گھاس اور درخت اکھاڑنا یکساں حرام ہے اس لئے دونوں پر جزاء ہے اور اگر دو محرم نے ملکر ایک درخت کاٹی تو دونوں پر ایک ہی قیمت قاجب ہوگی ۔ایسے ہی قارن پر ایک ہی جزاء واجب ہوگی اور حرم کے درخت پر دلالت کرنے کچھ واجب نہ ہوگا ۔
مسئلہ:درخت کی جزاء میں روزہ رکھنا جائز نہیں ۔
مسئلہ:گھاس کاٹنے کے بعد پھر پھوٹ کر پہلے جیسی بڑھ گئی تو جزاء ساقط ہوجائے گی اور پہلے سے کچھ کم رہی تو نقصان کا ضمان دینا ہوگا اور اگر بلکل اس کی جڑ خوشک ہو گئی تو اس کی قیمت واجب ہوگی۔