ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
|
تدابیر منصوصہ ہی میں ہے یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے بعض لوگ دعا ماثورہ کو چھوڑ کر اور طریق دعا کا اختیار کرتے ہیں ظاہر ہے کہ یہ طریق مقبول اور پسندیدہ خدا اور رسول کا ہوتا تو وہ بھی تو تعلیم کر دیا جاتا ، جب نہیں کیا گیا ـ اس سے معلوم ہوا کہ یہ طریق مقبول اور پسندیدہ نہیں اوراسی سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ غیر مقبول میں خیر اور برکت کہاں ، بے برکتی بھی مشاہد ہے اور بے برکتی کے اسباب میں سے یہ بھی ہے کہ یہ اس شخص کی تعلیمات اور تویزات ہیں جو توحید اور رسالت کا منکر اسلام اور مسلمانوں کا د شمن رئیس المشرکین والکافرین یہ سب اس کا سبق پڑھایا ہوا ہے ـ تحریک خلافت کے زمانہ میں ہجرت کا روزولیوشن پاس کر دیا ـ اسی پر مسلمان لبیک کہہ کر کھڑے ہو گئے ـ ہزاروں مسلمانوں کو بے خانماں کرا دیا اس کا جو مسلمانوں کی ذات پر اثر ہوا اور ناقابل برداشت نقصان پہنچا وہ سب کو معلوم پھر ملازمتیں ترک کرنے کی تعلیم دی گئی جن کی متیں ماری گئیں تھیں وہ چھوڑ بیٹھے مسلمانوں نے تو چھوڑیں اور ہندؤوں نے ان جگہوں کو پر کیا بہت سے تو اب تک جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں بعض کے خطوط آتے ہیں لکھتے ہیں کہ اس وقت یہ حماقت ہو گئی تھیں اب تک بے روزگاری ہے سخت پریشانی ہے یہ ہیں بے اصول کاموں کے انجام اگر کوئی اصول ہوتا یا کوئی مرکز ہوتا تو ان لوگوں کو کیوں پریشانی ہوتی اور کیوں بد دل ہوتے ـ غرضیکہ قدم قدم پر ناکامی اور ذلت گلوگیر ہو رہی ہے مگر پھر بھی آنکھیں نہیں کھلتیں جو سوجھتی ہے نئ سوجھتی ہے یہ سب مشرک کی تعلیم پر عمل کرنے کے ثمرات ہیں اگر مسلمان تنہا اصول کے ماتحت حدود شرعیہ کے تحفظ کرتے ہوئے اور کسی کو اپنا بڑا بنا کر کام کریں اپنی مالی اور جانی قوت کو ایک مرکز پر جمع کر لیں پھر کسی کو بھی اختلاف نہ ہوگا ـ مسلمانوں کے جو مقاصد شرعیہ یا اپنی بہبودی دنیا و دین کے لئے مطالبات ہیں مجھ کو ان سے اختلاف نہیں اور نہ کوئی مسلمان اختلاف کر سکتا ہے وہ تو سب ہی کو مطلوب ہیں مجھ کو جو اختلاف ہے وہ طریق کار سے ہے ـ حدود شرعیہ کا قطعا تحفظ نہیں سردار یا امیر کوئی نہیں اختلاف اور خلاف کی یہ حالت ہے کہ پارٹی بندیاں ہو رہی ہیں کہ علماء ( یہ ملفوظ آج سے ستائیس سال پہلے کا ہے جب علماء کی اکثریت ایک طرف کو چلتی تھی