ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
|
ہیں کہیں سے سناؤ تو کوئی حق بات اگر اس میں ہو گی تو مان لیں گے مولوی یحیٰ صاحب نے عرض کیا کہ حضرت ان میں تو گالیاں ہی گالیاں ہیں فرمایا کہ دور کی گالیاں لگا نہیں کرتیں سناؤ تو مولوی صاحب نے عرض کیا کہ میں تو نہیں سنا سکتا خاموش ہو گئے ـ اس پر حضرت والا نے فرمایا کہ اللہ رے بے نفسی حضرت گنگوہیؒ کی ـ کہ ایسے مخالف اور مقابل سے حق بات قبول کرنے میں بھی استنکاف ( عار) نہیں بلکہ اس کا اہتمام فرمایا ـ ملفوظ 249: خشوع کے حاصل کرنے کا طریقہ ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت خشوع کیسے حاصل ہو ـ فرمایا کہ خشوع کی حقیقت شرعیہ اس کی حقیقت لغویہ ہی کی ایک فرد ہے یعنی یہ ایک لغت ہے جس کے معنی ہیں سکون ـ پس قلب کے سکون کو خشوع کہتے ہیں اور سکون قلب مقابل ہے قلب کی حرکت کے ـ اور یہ حرکت قلب کی وہی ہے جس کو منطقی حرکت فکریہ کہتے ہیں ـ پس اس حرکت کا مقابل یہ ہے کہ فکر میں حرکت نہ ہو بلکہ سکون ہو یعنی افکار میں حرکت نہ کرے یہ نہایت مناسب عنوان ہے اس عنوان سے مسئلہ کا اختیاری ہونا ظاہر ہوتا ہے آ گے افکار میں حرکت نہ کرنیکا قابل طریقہ قابل تحقیق رہ گیا ـ سو وہ طریقہ یہ ہے کہ ایک محمود شے کی طرف متوجہ ہو جائے اس سے دوسری حرکات غیرمحمودہ بند ہو جائیں گی ـ یہ تجربہ ہے اس سے یکسوئی ہو جاتی ہے پھر یہ کہ وہ شے کیا ہے سو اس کے طرق معتدد ہیں مثلا یہ سوچ لے کہ خانہ کعبہ سامنے ہے ـ یا اگر الفاظ کی طرف توجہ آسان ہو یہ کر لے ـ یا معانی کی طرف توجہ کرے یا اگر ذات بحت ( یعنی حق تعالی کی ذات ) کی طرف توجہ ہو سکے تو سب سے اولی ہے ـ اب سوال یہ رہا کہ جس چیز کی طرف بھی توجہ کرنا ہو توجہ کس درجہ کی رکھے جس سے خطرات نہ آویں سو اس کے متعلق تجربہ سے معلوم ہوا کہ زیادہ کنج وکاؤ ( کھود و کرید) کرنا موجب ثقل ہے معتدل توجہ کافی ہے ـ جس کا درجہ ایک مثال سے بیان کرتا ہوں اور وہ بالکل الدین یسر ( دین آسان ہے ) کے مطابق ہے باقی اس سے زائد عسر ( تنگی میں پڑنا ) ہے ـ سو عسر