ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
|
کچھ مسائل فقہی پوچھتے ہیں اور میں بنا بر مصالح خاصہ مختلف مضامین کو ایک ہی خط میں جمع کرنے سے منع کیا کرتا ہوں تو میں جواب میں گو یہ لکھ سکتا تھا کہ جس خط میں احوال باطنی ہوں اس میں مسائل مت پوچھا کرو مگر میں نے اس کو احکام کے ساتھ سوء ادب سمجھ کر یہ لکھا ہے کہ جس میں مسائل پوچھنے ہوں اس میں دوسری بات نہ لکھنا چاہئے اصل میں تو جمع کرنے سے منع کرنا ہے مگر چونکہ مسائل اہم اور بڑی چیز ہیں ان کے متعلق اس طرح لکھنا کہ احوال باطنی کے ساتھ مسائل نہ پوچھا کرو ـ ایک قسم کا سوء ادب ہے ـ بحمداللہ میرے یہاں ہر چیز اپنے اپنے مراتب اور حدود پر رہتی ہے ـ ملفوظ 210: مجمل سوال کی تنقیح فرمایا ! کہ ایک شخص کا خط آیا ہے لکھا ہے کہ تہجد کے وقت چار تسبیح پڑھنے کا کیا حکم ہے میں نے جواب میں لکھا ہے کہ حدیث کا یا علماء کا یا مشائخ کا کس کا حکم ؟ فرمایا کہ سوال کا طریقہ بتایا ہے اور سوال کو ٹھیک کرایا ہے تاکہ جواب میں سہولت ہو ـ ملفوظ 211: علماء کے احترام کی حفاظت ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا ! کہ مجھ کو اس کا تحمل نہیں کہ ایک بے جاہل کسی عالم پر اعتراض کرے یا اس کی اہانت کرے ـ بگھر ایک قصبہ ہے وہاں پر ایک جلسہ ہوا تھا علماء کے احترام کیلئے جلسہ گاہ کو سجایا گیا بلیونپر کپٹا مندھا گیا پنڈال بنایا گیا ـ بعض علماء دیوبند یہ حالت دیکھ کر وہاں کر وہاں سے واپس ہو گئے اتفاق سے اسی زمانہ میں مدرسہ دیوبند میں لا ٹوس صاحب لفٹنٹ گورنر آئے تھے وہاں ان کیلئے اسی قسم کا تکلف کیا گیا تھا ـ اس پر ایک صاحب نے میرے سامنے اعتراض کیا کہ اپنے لئے مولوی سب کچھ جائز کر لیتے ہیں اور دوسروں کیلئے نا جائز ـ میں نے کہا کہ اکرام ضیف کا اس کے مذاق کے موافق کیا جاتا ہے ـ سو وہاں ضیف تھا ایک دنیا دار اس کا احترام یہی تھا اور یہاں ضیف تھے علماء ، یہاں ان کا یہ احترام نہ تھا ـ تم کو بالکل فہم نہیں تم دونوں کو ایک ہی بات سمجھتے ہو دونوں میں بڑا فرق ہے ـ