ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
|
متعلق ہیں ان میں تو میں بہت ڈھیلا ہوں کوئی پابندی نہیں اور یہ جو انتظام کی صورت نطر آتی ہے ـ یہ ان امور میں ہے کہ جن کا تعلق دوسروں سے ہے باقی اپنے متعلق تو یہ ہے کہ جہاں دونوں شقیں مباح ہوں کبھی اس پر عمل کر لیا کبھی اس پر عمل کر لیا ـ حاصل یہ ہے کہ کبھی کر لیا کبھی نہیں ـ ہاں اس کی ضرور کوشش کرتا ہوں کہ مباح کی حد تک عمل رہے شریعت کے خلاف نہ ہو اور میں اپنی حالت صاف صاف اسلئے بتلا دیتا ہوں کہ کسی کو دھوکہ نہ ہو ـ ملفوظ 432: عمل میں سہولت پسندی اور فضول تدقیقات سے تنفر ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت استغفار میں جو سب سے سہل صیغہ ہے وہ کون ہے فرمایا کہ میرا تو یہ معمول ہے اللھم اغفرلی پڑھ لیتا ہوں اور کبھی اللھم ارحمنی ملا لیتا ہوں اور اس میں اپنی کھانسی اور ضعف سب کی نیت کر لیتا ہوں ـ عرض کیا کہ یہاں تو بڑی ہی رحمت ہے بڑی سہولت ہے فرمایا جی ہاں ! طبیعت کو پسند کرتی ہے کہ کام کم اور مقصود سب حاصل ! عرض کیا کہ اگر یہ پڑھ لیا جایا کرے رب اغفر ور حم وانت خیرالراحمین - فرمایا بالکل مناسب ہے ہمارے حضرت مولانا محمد یعقوب صاحبؒ نے فرمایا تھا کی جس عرضی کا مضمون حاکم خود بتلائے اس کی منظوری میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا - تو جو صیغے منصوص ہیں ان پر عمل کرنے میں عدم قبول کا احتمال ہی نہیں وہ بتلائے ہی گئے ہیں قبول کے لئے ! ایک مولوی صاحب نے اس پر کوئی اشکال پیش کیا اس پر فرمایا کہ اجی کام کرنا چاہئیے ان تدقیقات میں کیا رکھا ہے کیوں وقت ضائع کیا جائے ـ بعضے علماء ان تحقیقات اور تدقیقات ہی میں اپنی ساری عمر دے بیٹھتے ہیں اور جب نتیجہ کا وقت آتا ہے اس وقت خالی رہ جاتے ہیں اس وقت ان سے وہ عامل اچھا نظر آتا ہے جو عالم نہیں مگر اپنے کام میں لگا ہوا تھا - خلاصہ یہ ہے کہ اس کے علم نے کیا نفع پہنچایا جب عمل ہی نہیں کیا اور ان تحقیقات ہی میں عمر گزار دی اگر محض تحقیقات ہی مقصود ہوتیں تو حضورؐ مسئلہ قدر میں گفتگو کرنے کو کیوں صحابہ کو منع فرما دیتے حضورؐ جیسے سمجھانے والے اور صحابہ جیسے سمجھنے والے وہ سمجھا سکتے تھے وہ