ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
|
کسی کا قول ہے ؎ گلستان میں جا کر ہر اک گل کو دیکھا ٭ نہ تیری سی رنگت نہ تیری سی بو ہے ماموں صاحب نے جن پر توحید وجودی غالب تھی اس پر فرمایا کہ شاعر ظاہر بین تھا اگر عارف ہوتا تو یوں کہتا ؎ گلستان میں جا کر ہر ایک گل کو دیکھا ٭ تیری ہی سی رنگت تیری ہی سی بو ہے ملفوظ 367: طریق اور مقصود میں فرق ملحوظ رکھنا ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ لوگ طرق کو مقاصد سمجھ گئے یہ بڑی غلطی ہے اور فرمایا اس پر ایک حکایت یاد آ گئی جو ایک عزیز سے سنی تھی کہ ایک شخص تھے ان کو اس میں کمال تھا کہ وہ آنکھ میں سرمہ تلوار سے ڈال دیتے تھے ایک مجمع میں اپنے لڑکے کو کھڑا کیا کہ اس کی آنکھ میں تلوار سے سرمہ ڈالوں گا اس شخص نے تلوار کی دھار پر سرمہ لگایا اور پنیترے بدلتا ہوا آیا اور اس صفائی سے ہاتھ آنکھوں پر چلایا کہ دونوں آنکھوں میں سرمہ لگ گیا اور تلوار پر سرمہ نہیں رہا وہ لڑکا بھی ذرا نہیں جھچکا وہ بھی مشتاق معلوم ہوتا تھا لیکن ظاہر ہے کہ اصل مقصود سرمہ لگانا ہے اور یہ خاص ہیئت محض ایک طریق ہے اگر کوئی اسی کو مقصود سمجھنے لگے تو عجب نہیں کہ کبھی دھوکا کھائے اسی طرح بعضے نا واقف تلوار سے سرمہ دالتے ہیں جس میں خطرہ بھی ہے اور میں سلائی سے ڈالتا ہوں جس میں کوئی خطرہ نہیں ـ دیکھئے اگر یہ طرق مقاصد میں داخل ہوتے تو سلف زیادہ مستحق تھے کہ وہ ان پر عمل کرتے اور دوسروں کو تعلیم فرماتے مگر اس کا کہیں بھی پتہ نہیں ـ میں ایک اور مثال عرض کرتا ہوں اگر کوئی شخص لندن جانا چاہے تو ہوائی جہاز کی ضرورت ہے اور کوئی جلال آباد جانا چاہے جو یہاں سے دو یا ڈھائی میل جگہ ہے تو کیا اس کو بھی ہوائی جہاز کی ضرورت ہے نہیں وہ چھکڑے سے بھی جا سکتا ہے مقصود اس سے بھی حاصل ہو سکتا ہے اور بلا خطر ـ بلکہ موٹر ہوا ریل ہوئی یہ سب خطرہ کی چیزیں ہیں اسپیشل جو جاتا ہے تو وہ دھا ئیں دھائیں کرتا چلا جاتا ہے اگر خدا نہ کرے ٹکرا جائے تو پھر