ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
|
اور تم نے اس درجہ کا کیا کفارہ کیا ـ ان صاحب کے جواب دینے پر فرمایا کہ آجکل تو بولنا کمال میں داخل ہو گیا ہے ایسے لوگوں سے یہ بھی امید نہیں ہوتی کہ کوئی بات کہی جائے اس کو سمجھ لیں گے پھر مفارقت کی تجویز کے متعلق فرمایا کہ حضرت خضر علیہ السلام اور موسی علیہ السلام کے واقعہ میں جس وقت حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا ھذافراق بینی و بینک ( یہ مجھ میں اور تم میں جدائی (کا وقت) ہے ) ایسے اولوالعزم پیغمبر یعنی موسیؑ نے کیا کسی معصیت کا ارتکاب کیا تھا ـ محض عدم مناسبت کی وجہ سے موسی علیہ السلام کو علیحدہ کر دیا ـ اس سے معلوم ہوا کہ اس تجویز کے لئے طالب کی معصیت شرط نہیں ـ ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت وہاں پر تو پہلے ہی شرائط طے ہو گئے تھے فرمایا اچھا یہ ہی سہی مگر یہ بتلایئے شرائط ہی کیوں طے ہوئے تھے اسی مناسبت و عدم مناسبت کے امتحان کے لئے تو طے ہوئے تھے ـ تو وہی بات رہی ـ عدم مناسبت کی ـ بالآخر موسی علیہ السلام کو ساتھ سے الگ ہونا پڑا نیز اب یہی طالب و شیخ میں بھی شرط ہوتی ہے وہاں صراحتہ تھی ـ یہاں دلالتہ جیسا مریض طبیب کے نسخہ میں چون وچرا نہیں کرتا ـ اور ایسا کرنے سے اگر وہ علاج چھوڑ دے اس پر کوئی ملامت نہیں کرتا ـ اس طریق میں تو چون و چرا سے کام چل ہی نہیں سکتا ـ بڑی ضرورت اس کی ہے کہ جس سے تعلق متابعت کا کیا جائے اس کو کلفت نہ پہنچائے اوریہ فکر اور غور سے ہو سکتا ہے مگر مشکل تو یہ ہے کہ لوگوں نے فکر اور غور کرنا ہی چھوڑ دیا ـ میں جیسے دوسروں کو نہیں ستاتا ـ یہ ہی دوسروں سے چاہتا ہوں کہ وہ مجھے نہ ستاویں ـ اس میں راز یہ ہے کہ عدم مناسبت کی وجہ سے کوئی نفع نہ ہوگا ـ اس کو میں ظاہر کر دیتا ہوں ـ اور ظاہر نہ کرنے کو خیانت سمجھتا ہوں کوئی فوج تھوڑا ہی جمع کرنا ہے عدم مناسبت کی صورت میں سب سے زیادہ اچھا اور سہل طریق یہ ہے کہ اصلاح کا تعلق کسی دوسرے سے کر لیں اور فوائد سننے کیلئے اگر چاہیں یہاں آ کر رہیں بذریعہ خط صرف میری خیریت معلوم کر لیا کریں دعا کیلئے لکھ دیا کریں مجھے خود قلق ہوتا ہے مگر کیا کروں میں بھی معذور ہوں خدمت سے تو انکار نہیں مگر خدمت طریقہ سے کی جاتی ہے ـ ملفوظ 163: اپنی اصلاح کے طریقے سوچتے رہنا فرمایا ! کہ جس طرح میں دوسروں کی اصلاح کے طرق سوچتا رہتا ہوں اللہ کا لاکھ لاکھ