ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
|
کرتے محض امر صریح کے متبع ہیں اور ملائکہ کے متعلق بھی ہیی خیال تھا کہ وہ محض نصوص کے متبع ہیں مگر حدیث جبریل انہ د س الطین فی فم فرعون مخافۃ ان تدرکہ الرحمۃ ( جبریل علیہ السلم فرعون کے منہ میں گارا اس لئے ٹھونس رہے تھے کہ کہیں رحمت حق اس پر متوجہ نہ ہو جائے ) (روایتہ بالحاصل )سے نیز حدیث القاتل التائب من الذنب اختلف فیہ ملائکۃ الرحمۃ والعذاب (جس قاتل نے گناہ (قتل ) سے توبہ کر لی تھی (بعد مرنے کے ) رحمتہ اور عذاب کے فرشتوں میں اسکے بارہ میں اختلاف ہوا ) سے اس طرف رجحان ہو گیا کہ ملائکہ اجتہاد بھی کرتے ہیں وکذا المجذوبین وزادالرحجان بقصۃ الاشراقی ان المجذوبین مختلفون فی احکام بقاء السلطنۃ و تبد لھا ـ (جو ملائکہ کا حال ہے یہی حال مذوبین کا ہے اور اشراقی صاحب ( جو حضرتؒ کے زمانہ میں ایک مذوبؒ تھے ) کے قصہ سے یہ خیال اور بڑھ گیا کیونکہ وہ فرماتے تھے کہ مجذوبوں میں اس میں اختلاف ہے کہ انگریزی سلطنت باقی رہے یا اس کو بدل دیا جائے ) ـ ملفوظ 107: وعظ کے اندر روانی نہ ہونا بھی حکمت ہے ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت میں جب وعظ بیان کرتا ہوں تو بیان کے وقت روانی نہیں ہوتی اور یہ بات تھوڑے ہی دنوں سے پیدا ہوئی ہے اس سے پیشتر خوب روانی ہوتی تھی فرمایا کہ اگر کسی کے کلام میں روانی نہ ہو لیکن روانی نہ ہونے کا سبب خوف آخرت ہو وہ تو عین مطلوب اور ممدوح فی الحدیث ہے ـ لیکن اگر خوف آخرت بھی سبب نہ ہو بلکہ کسی اور وجہ سے ہو تو اس کے مصالح پر نظر کر کے یہ حالت بھی مغتنم و مبارک ہے کہ جیسے سبب سے مسبب کا حدوث ہوتا ہے ایسے ہی بعض اوقات مسبب سے سبب پیدا ہو جاتا ہے ـ پس توقع ہے کے اس عدم روانی سے جو کہ بعض اوقات مسبب ہوتا ہے ـ خوف آخرت سے خود سبب یعنی خوف آخرت بھی پیدا ہو جائے ـ جیسا کہ حسیات میں بھی بعض اوقات ایسا ہو جاتا ہے جیسا کہ کھانا مسبب اور رغبت اس کا سبب ہے لیکن بچے کا جب دودھ چھڑایا جاتا ہے تو غذا اس واسطے دیتے ہیں تاکہ اس سے اس کا سبب یعنی رغبت پیدا ہو جائے ـ