ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
|
کے وقت جب اس درجہ استعجام ( جب پڑھنے میں گڑ بڑ ہونے لگے ـ 12 ) ہو جائے کہ کچھ کا کچھ نکلنے لگے اس وقت حکم ہے کہ سکوت اختیار کرو اس سے بعض اوقات سکوت کا ماموربہ ہونا اور ماموربہ ہونے کے سبب عبادت ہونا ثابت ہو گیا ـ ملفوظ 150: حضرتؒ کے یہاں دوسرے کے احوال باطنہ کی رعایت ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ میں فقیہ نہیں ، محدث نہیں ، مجتہد نہیں ، مفسر نہیں ہاں ان حضرات کا نقال ہوں جن کو ان چیزوں میں کمال تھا ـ اللہ کا شکر ہے جب کوئی ضرورت پیش آتی ہے اپنے بزرگوں کی دعا سے اس کے متعلق ضروری علم حق تعالی قلب میں وارد کر دیتے ہیں یہ میرا کمال نہیں جس پر میں فخر کر سکوں یا سننے والا فخر سے تعبیر کر لے ـ بلکہ واقعہ ہے پھر اسی سلسلے میں احوال باطنہ کی رعایت کے متعلق فرمایا کہ میں یہاں تک وقت کا خیال رکھتا ہوں کہ اگر کسی پر کوئی حال وارد ہو ـ میں اس میں مزاحمت نہیں کرتا ـ مکہ معظمہ کا واقعہ ہے کہ ایک صاحب بیت اللہ کی طرف دیکھ کر مجھ سے ایک ایسی بات کہنے لگے کہ بظاہر قابل نکیر تھی ـ میں اس وقت موافقت تو کر نہیں سکتا تھا مگر مخالفت یا زجر بھی نہیں کیا ـ اور مخالفت نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت ان کی حالت دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ ان کا یہ عقیدہ نہیں ہے بلکہ حالت کا غلبہ ہے ـ موسیؑ اور چرواہے کا قصہ یاد آ گیا اس سے یہ سمجھ میں آیا کہ موسی علیہ السلام نے اس چرواہا سے جو مزاحمت کی تھی ـ آپ نے غایت غلبہ انتظام و حمیت دین سے اس وقت اس طرف توجہ نہیں فرمائی کہ مغلوب ہے اور عقل اور علم سے مسلوب ہے ـ مولانا رومیؒ اسی واقعہ کو اس طرح فرماتے ہیں ؎ ایں نمط بہیودہ میگفت آں شباں ٭ گفت موسی باکیست ای فلاں گفت با آں کس کہ مارا آفرید ٭ این زمین و چرخ از و آمد پدید گفت موسی ہائے خیرہ سر شدی ٭ خود مسلمان نا شدہ کافر شدی ایں چہ کفر ست این چہ ژاژ ست وفشار ٭ پنبئہ اندرد ہان خود فشار