ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
|
میں لوگوں کے عقائد نہایت ہی خراب ہیں ـ اور اس میں ایک اور بہت بڑی خرابی ہے وہ یہ ہے کہ اگر وظیفہ سے کام نہ ہوا تو پھر آیات الٰہیہ سے بد گمانی بد عقیدگی ہوتی ہے یہ سب جاہل عاملوں سے کی بدولت ہو رہا ہے ان کے یہاں ہر کام کیلئے وظائف ہی کی تعلیم ہوتی ہے ـ اہل نا اہل بھی نہیں دیکھا جاتا اس کے علاوہ بتلانے کے وقت ایسے طرز سے کہتے ہیں اور ایسا اطمینان دلاتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام اسی طرح ہوجائے گا اس میں کوئی شک و شبہ ہی نہیں اور اگر تقدیر سے اس کے خلاف ہوا تو اس پڑھنے والے کے ایمان کے لالے پڑ جاتے ہیں ـ یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ آیات الٰہیہ میں بھی کوئی اثر نہیں پھر ایسی بدگمانی کا مقتضا تو یہ تھا کہ دعا ہر گز قبول نہ ہوتی ـ دیکھئے ! موٹی سی بات ہے اگر ہم کسی کو دو روپیہ مہینہ دیتے ہوں اور اس کی نسبت ہم کو اس کے اقرار سے یہ معلوم ہو جائے کہ اس کو ہماری نسبت بد گمانی ہے کہ اب نہ دیں گے ـ پھر قیامت تک بھی ہم اس کی طرف التفات نہ کریں گے مگر حق تعالی ہیں کہ سب کچھ سنتے ہیں دیکھتے ہیں پھر بھی رزق بند نہیں فرماتے بڑے ہی وحیم و کریم ہیں ـ ملفوظ 93: ذکر میں مزہ نہ آنا فریا ! کہ ایک صاحب مجھ سے کہنے لگے کہ ذکر میں مزہ نہیں آتا ـ میں نے کہا کہ مزا تو مذی میں ہے یہاں کہاں مزا ڈھونڈتے پھرتے ہو ـ فرمایا کہ کوئی مزے کا طالب ہے کوئی کیفیات کا طالب ہے اگر خدا کے ساتھ تعلق ہو تو اس بے مزگی میں بھی ایک خوش مزگی ہوتی ہے جن کیفیتوں کے لوگ طالب ہیں وہ نفسانی کیفیات ہیں اور مطلوب روحانی کیفیات ہیں ان روحانی اور نفسانی کیفیات میں فرق بڑا ہی مشکل ہے نفسانیات کے در پے ہونے کی ضرورت نہیں یہ کیفیات اور جوش و خروش کچھ عمر نہیں رکھتے ان کے فرو ہونے کے بعد پھر روحانی کیفیت بڑھتی ہے وہ البتہ دائمی ہوتی ہے ان میں ضعف نہیں ہوتا وہ بالکل ایسی ہوتی ہے جیسے مولانا فرماتے ہیں ؎ خود قومی میشود خمر کہن ٭ خاصہ آں خمرے کہ باشد من لدن ( پرانی شراب ( نشہ لانے میں )زیادہ قوی ہوتی ہے خاص کر وہ شراب جو ( معرفت ) حق کی شراب ہو)