ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
|
کہ میں آپ کی نصیحت پر یہیں سے عمل شروع کرتا ہوں ـ اس پر حضرت والا نے فرمایا کہ کے لیتے اس نے یہ بھی تو کہا تھا کہ خدا کفیل ہوگا تو یہ خدا ہی نے تو پیش کرائے تھے اور مسجد ہی کے بیٹھنے کی نیت کا ثمرہ تھا ـ ایک بزرگ خلوت نشین تھے لفٹنٹ گورنر ملاقات کو گئے جا کر سلام کیا جب رخصت ہونے لگے عرض کیا کہ حضور کی زندگی کا کیا ذریعہ ہے بزرگ نے فرمایا کہ کل جواب دونگا ـ اگلے روز لفٹنٹ گورنر پھر بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ایک ہزار روپیہ کی تھیلی ہمراہ لے گئے اور پیش کی اور عرض کیا کہ حضور آج جا رہا ہوں اور کل کے جواب کا انتظار ہے بزرگ نے فرمایا یہ کل کا جواب ہے تم میرے مرید نہیں حتی کہ مسلمان بھی نہیں میرا تم سے تعلق کیا پھر کیوں دیتے ہو حق تعالی اسی طرح عطا فرماتے ہیں گزر ہوتی ہے تو جس طرح ان بزرگ نے خدا کا عطیہ سمجھ کر لے لیا تھا ـ اسی طرح مولوی صاحب کو بھی خدا کی عطا سمجھ کر لے لینا تھا ـ ملفوظ 364: ہدیہ اور حضرت حاجی صاحبؒ کا معمول ایک مہمان پنجاب سے حاضر ہوئے ان کا حضرت والا سے بیعت کا تعلق تھا ـ بعد مصافحہ کرنے کے عرض کیا کہ کچھ پکی ہوئی مچھلی اور روغنی روٹی بطور ہدیہ پیش کرتا ہوں ـ حضرت والا نے دیکھ کر فرمایا اس قدر زائد لانے کی کیا ضرورت تھی تھوڑا لے آ تے عرض کیا کہ حضرت یہ تو تھوڑا ہی ہے بطور مزاح فرمایا کہ اب یہ اعتراض ہے کہ تھوڑا کیوں لائے زائد کیوں نہیں لائے یہاں پر تو دونوں شقوں پر اعتراض ہے ـ اس سلسلہ میں حضرت والا نے فرمایا کہ ایسے ہدایا میں سے ضرور کھانا چاہیئے اس میں ایک نور ہوتا ہے ـ ہمارے حضرت حاجی صاحبؒ کا معمول تھا کہ ایسی چیز میں ضرور کچھ تھوڑا بہت کھا لیتے تھے حضرت کا رنگ تو عجیب تھا یہ معلوم نہ ہوتا تھا کہ حضرت لذئذ سے بچے ہوئے ہیں آپ کھاتے تھے اور بہت قلیل یہ بڑی مشکل بات ہے کہ کھائے اور کم کھائے اس سے یہ آسان ہے کہ بالکل نہ کھائے مگر حضرت کا یہ معمول تھا کہ کیسی ہی کوئی چیز آ گئی مثلا انگور وغیرہ بس