ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
|
محبوب میں اور طالب میں جو مسافت ہے وہ محبوب ہی کے قطع کئے ہو سکتی ہے محب کے قطع کئے قطع نہیں ہو سکتی مگر طلب شرط ہے ہم کو اپنا کام کرنا چاہیے یہ باتیں بدوں کام کئے سمجھ میں نہیں آ سکتیں جیسے کھانا بدوں کھائے اس کا ذائقہ معلوم نہیں ہو سکتا ذائقہ کا معلوم کرنا کھانا پر موقوف ہے جاننے پر کفایت نہیں ہوتی ـ طلب پر فرماتے ہیں ـ والذین جاھدوا فینالنھد ینھم سبلنا ( اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں ہم ان کو اپنے قرب و ثواب یعنی جنت کے راستے ضرور دکھا دیں گے ) ـ اور طالب نہ ہونے پر فرماتے ہیں : انلز مکموھا وانتم لھا کرھون ( تو میں کیا کروں مجبور ہوں کیا ہم اس دعوی یا دلیل کو تمہارے گلے مڑہ دیں ) 7 رمضان المبارک 1350ھ مجلس خاص بوقت صبح یوم شنبہ ملفوظ 195 عبادت میں جی نہ لگنا فرمایا ! ایک خط آیا لکھا ہے کہ گزشتہ دنوں میں سے خادم خدام کی حالت نہایت ناگفتہ بہ ہے نماز میں جی لگتا ہے نہ ذکر میں نہ کلام مجید پڑھا جاتا ہے اور دنیا کا کوئی کام بھی نہیں ہوتا ـ بس ایک عجیب گول گول حالت ہو رہی ہے ـ میں نے جواب میں لکھ دیا ہے کام تو جس طرح بن پڑے کرنا ضروری ہے خواہ ناقص ہی ہو تکمیل کا یہی طریقہ ہے اگر بد نویس اس لئے مشق کرنا چھوڑ دے کہ اچھا نہیں لکھا جاتا تو اس کو اچھا لکھنا بھی نہ آئے گا ـ اسی سلسلہ میں فرمایا کہ عمل ناقص کو بھی چھوڑنا نہیں چاہئے جیسے بنیاد کے مضبوط ہونے کا تو اہتمام کرتے ہیں مگر اس کے خوش نما ہونیکے پیچھے نہیں پڑتے اس میں روڑے وغیرہ بھر دیتے ہیں اور بعد میں اس پر بڑے بڑے محل اور کوٹھیاں تیار ہوتی ہیں اسی طرح عمل ناقص بنیاد ہے عمل کامل کی بنیاد کے کمال اور نقصان پر نظر نہ کی جائے جو کچھ اور جس طرح ہو سکے کرتا رہے اصول کے موافق ہو چاہے اس میں نقصان ہی ہو جیسے نماز گو ناقص ہی ہو مگر ہو حدود میں وہ ہو جاتی ہے بلکہ ایسی عبادت پر اجر زیادہ ہوتا ہے جس میں جی نہ لگے کیونکہ وہ مجاہدہ ہے ـ یہ طریق بہت ہی نازک ہے محض کتابیں پڑھ لینے سے کام نہیں چل سکتا فہم کامل اور