ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
کا اسی سے اندازہ کر لیا جائے کہ وہ کیا کرتے ہوں گے ـ اب جو ان باتوں پر تنبیہ کرے یا خاموش اور علیحدہ رہ کر خرافات کی شرکت سے اپنے دین و ایمان کی حفاظت کرے اس پر لعن طعن سب وشتم کیا جاتا ہے ـ یہ سب خرابیان امیر عادل نہ ہونے کی وجہ سے ہیں اگر امیر عادل ہو وہ ان خرافات کا انسداد کر سکتا ہے وہی حدود کی رعایت کرا سکتا ہے ـ غرض اصل چیز رعایت ہے حدود کی پھر اگر اس میں کامیابی نہ ہو تو صبر کریں ـ اجی جان دینا تو مشکل نہیں مگر یہ تو اطمینان ہو کہ اپنے مٖصرف پر گئی جان بھی ـ کم بخت دی اور خلجان مول لیا کہ جس کام کیلئے جان دی ہے وہ دین ہے یا نہیں ـ یونہی بیٹھے بٹھلائے جا کر جان دے دینا کون سی انسانیت ہے اگر کوئی وقت آ گیا جان دینے کا اور صحیح مصرف بھی ہوا تو سب سے پہلے یہ مدعیان خیر خواہی قوم اور ہمدردان اسلام ہی دم دبا کر بھاگتے نظر آئیں گے جس وقت حضرت مولانا دیو بندیؒ مالٹے سے دیوبند تشریف لائے تو میں حضرت کی زیارت کیلئے دیوبند حاضر ہوا تھا ـ وہاں پر ایک صاحب اس قسم کی گفتگو کرنے لگے اور یہ کہا کہ آپ کو تو معلوم ہے پہلے آپ کے بزرگ بھی تو کھڑے ہوئے تھے میں نے کہا مجھ کو یہ بھی خبر ہے کہ کھڑے ہوئے تھے اوراس کی بھی خبر ہے کہ بیٹھ بھی گئے تھے اور آخر تک بیٹھے ہی رہے ـ اب بتلاؤ کہ اپنے بزرگوں کے متبع ہم ہوئے یا تم اس لئے کہ تم منسوخ پر عمل کر رہے ہو اور ہمارا عمل ناسخ پر ہے پھر کچھ نہیں بولے خدا معلوم کیا سمجھ رکھا ہے جن وجوہ اور اسباب کی بنا پر بیٹھ جانیکو ترجیح دی تھی وہی اسباب اب بھی موجود ہیں ـ بلکہ اس سے زیادہ ابتری اور کمزوری نظر آ رہی ہے ـ اگر ذرا غور اور فکر سے کام لیں تو اس وقت اور اس وقت کی حالت کا تفاوت مشاہد ہو سکتا ہے کوئی باریک یا غامض بات نہیں جس میں اختلاف کی گنجائش ہو اور یوں تو ہر بات کا جواب ہو سکتا ہے ـ مگر دیکھنا یہ ہے کہ وہ جواب مقبول ہے یا مردود ـ اس لئے کہ شیطان نے اللہ میاں کو جواب دیا تھا اس پر جو حشر اس کا ہوا کسی سے مخفی نہیں اور عوام کے بھروسہ جبکہ ان میں دین بھی پورا نہ ہو کسی ایسے کام میں ہاتھ ڈالنا بہت خطرناک بات ہے اور یہ خطرہ دنیا ہی کیلئے نہیں بلکہ اس کا اثر دین پر بھی ہو گا اور یہ نہایت قوی اندیشہ ہے خصوصا اس حالت کے مضر ہونے میں تو کوئی کلام ہی نہیں ہو سکتا جبکہ دوسروں کے کندھوں پر بندوق چلائی جا رہی ہو ـ