ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
|
تقریر بھی ایک علمی ناول تھا جس میں فرضیات سے مفید سبق دیا جاتا ہے ـ خلاصہ یہ ہے کہ ہر کام اصول سے ہو سکتا ہے بے اصول تو گھر کا بھی انتظام نہیں ہو سکتا ـ ملک کا تو کیا خاک انتظام ہو گا ـ یہ ہیں وہ اصولی باتیں جن پر مجھ کو برا بھلا کہا جاتا ہے اور قسم قسم کے الزامات و بہتان میرے سر تھوبے جاتے ہیں اور لوگ مجھ سے خفا ہیں اور وجہ خفا ہونے کی صرف یہ ہے کہ میں کہتا ہوں کہ اصول کے ماتحت کام کرو جوش سے کام مت لو ـ ہوش سے کام لو ـ جوش کا انجام خراب نکلے گا ـ حدود شرعیہ کی حفاظت رکھو وہ ان باتوں کو اپنے مقاصد میں روڑا انکا نا سمجھتے ہیں ـ میں کہتا ہوں اگر دین نہ رہا اور احکام اسلام کو پا مال کرنے کے بعد کوئی کام بھی کیا تو وہ کام پھر دین کا نہ ہو گا ـ کیا یہ دین کی خیر خواہی اور ہمدردی کہلائی جا سکتی ہے ـ اے صاحبو! آج سے پہلے بھی تو اسلام اور مسلمانوں پر اس سے بڑے بڑے حوادث پیش آئے ہیں کہ اس وقت اس کا عشر عشیر بھی نہیں مگر انہوں نے اس حالت میں بھی اصول اسلام اور احکام اسلام کو نہیں چھوڑا سلف کے کارناموں کو پیش نظر رکھ کر کچھ تو غیرت آنا چاہئے تم تو معمولی معمولی باتوں میں احکام اسلام کو ترک کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہو وہ حضرات عین قتال کے وقت بھی حدود کی حفاظت اور رعایت فرماتے تھے جس پر آج ہم کو فخر ہے اب تم ہی فیصلہ کر لو کہ وہ تھے خیر خواہ اسلام ہمدرد اسلام جانباز اسلام یا تم ـ تحریک خلافت کے زمانہ میں صاف الفاظ میں یہ کہا جاتا تھا کہ یہ مسائل کا وقت نہیں کام کرنے کا وقت ہے ـ ایک مولوی صاحب نے جو تحریکات میں نہایت جوش اور سرگرمی کے ساتھ کام کر رہے تھے مجھ سے خود بیان کیا کہ ہم کو وہ کام کرنے پڑے ہیں اس تحریک میں کہ اگر علماء کو معلوم ہو جائیں تو ہم پر کفر کا فتوی دیدیں ـ یہ تو حالت ہے اور اس پر دعوی دین کی خدمت کا ـ خود ان خرافات اور بہیود گیوں کا اقرار ہے اور پھر ایسے معالات میں کہ جن کو خود بھی شرک اور کفر تک سمجھتے ہیں دوسروں کو شرکت کی دعوت دی جاتی ہے کہ تم بھی ہم جیسے بن جاؤ ـ اس موقع پر یہ مقولہ صادق آتا ہے "" ہم تو ڈوبے ہیں مگر تجھ کو بھی لے ڈوبیں گے ،، یہ تو علماء کی حالت ہے جو ان تحریکات میں حصہ لے رہے ہیں ـ باقی عوام اور لیڈروں کی حالت