ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
|
اور مال اور ایمان بچ جائے پھر اس قتال میں اگر جان چلی جائے تو چلی جائے وہ شہادت ہے اور خود قتل مقصود نہیں ہے وہ بھی جبکہ اس قتال کی سب شرطیں پائی جائیں اور موانع مرتفع ہوں جس کی تفصیل کتب فقہ میں ہے اور خود قتل کا مقصود نہ ہونا اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں ہر جگہ یقتلون ( بصیغہ مجہول ) بعد میں ہے یقتلون ( بصیغہ معروف ) سے ـ پس معلوم ہوا کہ یقتلوں خود مقصود نہیں بلکہ یقتلون سے کبھی لازم آ جاتا ہے ـ سوال : پوری قدرت تو نہیں مگر جو کچھ بھی ہے اس کا استعمال کس طرح کریں کچھ تو ہونا چاہئے ـ جواب : یہ بھی آپ ہی بتا سکتے ہیں کہ کیا کرنا چاہئے میری تو سمھھ میں اس سے زیادہ نہیں آتا کہ ان کو تبلیغ کرو اور دین سکھلاؤ اس کے بعد لڑاؤ ـ میں پوچھتا ہوں ہجرت کے بعد جو مسلمان مکہ میں تھے ان کی جانیں تھیں اس وقت اہل مدینہ نے ایک بھی جتھ نہ بھیجا ـ کوئی بھی جتھا نہ گیا جب تک آیت قتال نازل نہ ہوئی ـ صبر کے سوا کوئی حرکت اس آئینی جنگ کی جاری نہ ہوئی پس جنگ اسلامی لڑو آئین کہاں کی خرافات نکالی ہے ـ سوال : ایسے آئین اس وقت ایجاد نہ ہوئے تھے اگر ہوتے تو جنگ بھی ایسی ہی ہو جاتی ـ جواب : بہر حال اس سے اتنا تو معلوم ہو گیا کہ یہ آئین منصوص تو ہے نہیں عقل ہی کا اختراع ہے تو صحابہ بھی عاقل تھے ان کے ذہن میں اور بڑی بڑی تدبیریں آئیں یہ تدابیر کیوں نہ آئیں اوریہ کیا آج کل کی اختراع شدہ تدابیر میں سے ایک بھی نہ آئی تو بس قتال کی آئی وہ بھی جب جبکہ آیت قتال نازل ہو چکی ـ خلاصہ یہ ہے کہ اگر عمومات سے استدلال ہے تو سوال یہ ہے کہ آج تک امت میں عمومات سے استدلال کر کے کسی نے عمل بھی کیا ہے اور کیا تیرہ سو برس میں ایسی مظلومیت کی صورتیں پیش نہ آئیں تھیں ـ پھر یہ طریقے کیوں نہیں اختیار کئے گئے ـ دوسری بات یہ پوچھتا ہوں کہ ہجرت کے بعد جو مستضعفین مکہ میں رہ گئے تھے ان مسلمانوں میں بھی کچھ قوت اور استطاعت تھی یا نہیں اگر یہ کہا جائے ان میں قوت اس قدر نہ تھی کہ کسی قسم کا بھی مقابلہ کر سکتے جواب یہ ہے کہ یہ غلط ہے ان میں اس قدر قوت تھی کہ ہندوستان کی قوت ان کی قوت کے سامنے گرد ہے ـ