ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
|
خود کشی کے مرادف ہے اور اگر خود کشی سے کسی کو فائدہ پہنچے تب بھی تو باوجود موجب فوائد ہونے کے جائز نہیں ہے ـ چہ جائیکہ کوئی فائدہ بھی نہ پہنچے تو اس کا درجہ ظاہر ہے یعنی اگر یہ معلوم ہو جائے کہ خود کشی کرنے سے کفار پر اثر ہوگا تو کیا خود کشی کرنا جائز ہو جائے گا اور یہ جیلوں میں جانا اور بھوک ہڑتال کرنا کیا خود کشی کا مرادف نہیں ہے اگر کوئی نفع بھی خود کشی پر مرتب ہو تو یہ خود ہی اتنا زبردست نقصان ہے کہ جس کا پھر کوئی بدل ہی نہیں حضرت ہر منفعت کا اعتبار نہیں اس کی تو بالکل ایسی مثال ہے کہ کوئی شخص یوں کہے کہ فلاں شخص کی جان بچ سکتی ہے اگر تم کنوئیں میں گر جاؤ تو اس کی جان بچانے کی غرض سے کیا کنوئیں میں گر جانا جائز ہو گا ـ سوال : تو کیا پھر قتال ہی کیا جائے ـ جواب : ضرور ، مگر قدرت عادی شرط ہے اور محض کامیابی کی خیالی توقع قدرت نہیں ہے ـ سوال : ضرر تو قتال میں بھی ہے اشد ضرر کہ جان جاتی ہے ـ جواب : چونکہ قتال مقصود اور منصوص ہے اس لئے اس کا ضرر معتبر نہیں اور یہ تدابیر اور طریق کار غیر منصوص ہیں اس لئے اس کے ضرر کو دیکھا جائے گا ـ اور وجہ فرق دونوں میں یہ ہے کہ اصل مقصد یہ ہے کہ فتنہ نہ ہو قتال فتنہ نہیں ہے کیونکہ قتال میں طبیعت یکسو ہو جاتی ہے اور سکون ہوتا ہے ـ اور ان امور میں تشتت اور پراگندگی اور اضاعت اوقات ہے ـ اصل یہ ہے کہ لوگ فقہ کو نہیں دیکھتے پروگرام بناتے وقت ـ اور فقہ کو محض رائے سے دیکھنا کافی نہیں اور نہ مفید ہے بلکہ نصوص اور ذوق کے ساتھ دیکھنا مفید ہے اس میں سب احکام اظہر من الشمس ہین فن فقہ ہی دقیق ہے اسی واسطے میں ہمیشہ احتیاط کے پہلو کو ترجیح دیتا ہوں ـ سوال : من قتل دون عرضہ ومالہ فھو شھید ( جو شخص اپنی آبرو اور مال کے بچانے کے سلسلہ میں قتل ہو جائے وہ شہید ہے ) سے جان دینا جائز نکلتا ہے تو بھوک ہڑتال وغیرہ میں گنجائش معلوم ہوتی ہے ـ جواب : قتل سے مراد خود کشی نہیں ہے بلکہ مراد قتال ہے یعنی لڑو جنگ کرو اس نیت سے کہ جان