کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے
حضرت مولانا ریاض الرحمن صاحب رشادیؒ ،
یادوں کے جھروکے سے
منظور ہے گزارشِ احوالِ واقعی
اپنا بیانِ حسنِ طبیعت نہیں مجھے
اس میں شک نہیں کہ یہ دنیا باکمالوں سے بھری پڑی ہے ۔ ایک سے ایک باکمال اور ایک سے ایک صلاحیت مند فرد یہاں موجود ہے ۔ آنکھیں دیکھنے کے لیے تیار ہوں تو ایک سے ایک حسین پری رو چہرہ اپنے حسن کی رعنائیاں بکھیرنے کو تیار ہے ، ناک سونگھنے کو تیار ہوتو ایک سے ایک عطر فروش اپنا سامانِ تجارت لیے کھڑا ہے ۔ کان سننے کو تیار ہوں تو ایک سے ایک گویا، ایک سے ایک مترنم ، اپنی آواز کا جادو جگانے کو تیار بیٹھا ہے ۔ بس سامعین کی بھیڑ جمع ہونے کی دیر ہے ، کوئی گا گا کر اپنا لوہا منوانا چاہتا ہے ۔ کوئی چہک چہک کر اپنی بولی سنوانا چاہتا ہے ، کوئی گھن گرج کرکے لوگوں پر اپنے زورِ خطابت کی دھاک بٹھانا چاہتا ہے ۔
ایسے باکمالوں کی نہ دنیا میں پہلے کوئی کمی تھی نہ آج ہے ۔ لیکن فلاح انسانی کے لیے ، نجاتِ انسانی کے لیے ، انسان کو مادی علائق سے دور کرکے بام عروج پر پہنچانے کے لیے ایسے کسی گویے ، شاعر یا خطیبِ بے دھڑک کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ضرورت ہوتی ہے ایک دلِ درد مند رکھنے والے آدمی کی ، ضرورت ہوتی ہے ایک سوز مند آواز کی، ضرورت