بڑے حضرت کی بڑی ادائیں
یہ دنیا اپنے اندر عجب رنگ وبو لیے ہوئے ہے ، اس کی نیرنگیوں کا کیا کہنا اب یہی دیکھ لیجئے کہ بعضے حضرات زندگی ایسی گزارتے ہیں کہ ان کی وفات پر تعزیتی پیغام یا مقالہ لکھنا ہوتو الفاظ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ، لغات چھان پٹک کر ، تعریفی کلمات تلاش کر کرکے ، ایک مضمون تیار کرنا پڑتا ہے ۔ اور بعض ایسے کہ قلم ہاتھ میں لیا اور ان کی یادیں ، ان کی باتیں ، ان کی ادائیں ، ان کی مہربانیاں ، ان کی نوازشات، ان کے انعامات ، ان کے احسانات ، ان کے فرمودات ، اوران کے ارشادات ذہن کے چٹیل میدان پر ایسے مسلسل اور پیہم برسنے لگتے ہیں گویا صحرا ء میں موسلادھا ربارش کا سماں بندھ جاتا ہے۔ آج اس ارادہ سے قلم لے کر بیٹھا کہ بڑے حضرت ؒ کے بارے میں کچھ لکھوں ، کچھ لکھوں کیا بلکہ بقول شیخ الملت حضرت علامہ امانیؒ
بڑی مدت سے تھا یہ دل میں ارماں
کہ کرلوں مغفرت کا اپنی ساماں
اپنی مغفرت کا سامان بہم پہنچالوں تو بڑے حضرت کی باتیں بلکہ خود بڑے حضرت اس طرح دل و دماغ پر چھائے کہ قلم اپنی سست روی اور تنگ دامنی کی شکایت کرتا محسوس ہوتا ہے ۔ سوچتا ہوں کاش کوئی سائنس داں ایسا قلم ایجاد کرے کہ آدمی جو کچھ سوچتا ہے ، جتنا کچھ یاد کرتا ہے ، وہ قلم اسی رفتار سے اسے ضبطِ تحریر میں لاتا رہے۔ دل بڑے حضرت کی یادوں میں کھویا رہے ، ادھر قلم صفحات کے صفحات سیاہ کرتا چلا جائے ۔
یہی دل کی حسرت یہی آرزو ہے