مذہبی مقامات بل دستورِ ہند کے پس منظر میں
دستور ہند کے مرتبین اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے کہ تقسیم ہند کے باوجود مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہندوستان ہی کو اپنا اصلی وطن تسلیم کرتے ہوئے یہیں رہنا پسند کرتی ہے اور اپنے وطن عزیز کو ترک کرنا پسند نہیں کرتی۔ ان مسلمانوں کے علاوہ ملک میں اور بھی کئی اقلیتیں اور نسلیں ہیں جو زمانۂ دراز سے موجود رہی ہیں اور ملک کی کل آباد ی کا ایک بڑا حصہ انہی اقلیتی طبقات کا مجموعہ ہے ، ان دستور سازوں کو اس بات کا بھی پوری طرح ادراک تھا کہ ملک میں امن وسلامتی کے علاوہ مجموعی اعتبار سے ملک کی ترقی اس وقت ہوسکتی ہے جب ملک کے تمام طبقات میں تحفظ کا احساس اور یکجہتی واتفاق کی فضا قائم رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان حضرات نے ملک کی تمام اقلیتوں کو مختلف دفعات کے ذریعے ضمانتیں ، تحفظات اور حقوق فراہم کیے ۔ دستور کے نفاذ کے بعد بھی دستور سازوں نے بار بار قانون ساز اسمبلی میں اس بات پر زور دیا تھا کہ اسی دستورکے ذریعے اقلیتوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے ، اگر اس دستور کی کسی دفعہ کے ذریعے اقلیتوں کے حقوق پامال ہونے کا اندیشہ ہوتو ایسا دستور قابل تنسیخ ہے ۔ چنانچہ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے قانون ساز اسمبلی میں ۲۰ ستمبر ۱۹۵۰ء کو تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں نے اس دستور کو ایک اکثریتی