دامن گیر رہتی، الفت ومحبت ایسی کہ کوئی چھوٹا سا طالب چاہتا تو جا کر اپنی مشکل حضرت کو سنا سکتا تھا، ہمہ وقت طلبہ کے کام آنے کا ایک جذبہ آپ میں موجزن رہتا۔ کھلے ہاتھ اور کھلے دل کے مالک تھے ، راقم نے کبھی آپ کو تنہا کھاتے نہیں دیکھا ، جب بھی کھانا کھاتے کسی طالب علم کو اپنے خوانِ نعمت پر ضرور شریک کرتے ۔ بسا اوقات ایسا ہوتا کہ کسی طالب علم کو معمولات مدرسہ کی کسی خلاف ورزی پر مطبخ سے کھانا بند کروادیتے ، پھر کھانے کے وقت اسے اپنے کمرے میں بلاکر ، اپنے دسترخوان پر کھانا کھلاتے۔ کھانا کھلانا ہی ہے تو پھر مطبخ سے کھانا بند کروانے کی کیا ضرورت ؟ فرماتے: ’’وہ ضابطہ کا تعلق ہے ، یہ رابطہ کا تعلق ہے ‘‘۔
اردو ادب پر بھی حضرت کی گہری نگاہ تھی، آ پ بذاتِ خود پایے کے ادیب تھے ہی ، ساتھ ہی ساتھ طلبہ کو اردو کی نزاکتوں کی طرف خوب توجہ دلاتے۔ اردواملا، اردو قواعد اور الفاظ کے موقع استعمال سے طلبہ کو خوب واقف کراتے ۔ نثر اور نظم پر کامل دسترس تھی،دارالعلوم سبیل الرشاد کے رسالے سلسبیل میں آپ کے متعدد مضامین اور منظومات قارئین کی نذر ہوچکے ہیں ۔
وہ ۱۹۹۴ کی ایک حسرت بھری رات تھی ، جب آپ کسی سفر سے واپس ہوکر مدرسہ پہنچے ، حسب عادت شعبہ حفظ کی درسگاہوں میں گئے ، طلبہ کو سستی پر تنبیہ فرمائی اور اپنے کمرے کو لوٹ آئے پھر آناً فاناً ہمہ صفات سے متصف ، متنوع خوبیوں سے آراستہ ہمارے حضرت ہم سب کو حیراں وپریشاں چھوڑ کر مالکِ حقیقی سے جاملے ۔ اللہ جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے ۔ آمین
حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب مظاہری ؒ
میرے استاذ محترم حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب کا شمار مدرسہ کے اولین