رکھ دیتی ہے اور خالی بانس اپنے آپ کو اکڑ ائے رہتا ہے ۔ بڑے حضرت ؒ کو ہم نے کبھی نہیں سنا کہ آپ نے کسی کی دل آزاری کی ہو نہ اپنے عمل سے نہ اپنی زبان سے ۔ آپ کا طرز خطاب ہر ایک سے محبت بھرا ااور اپنائیت والا ہوتا ، چاہے وہ مدرسے کے استاذ ہوں ، چاہے رقیب صاحب ہوں ، چاہے مدرسے کے بچے۔
’’مولوی صاحب‘‘
’’ رقیب صاحب‘‘
’’ ادھر آؤ بابا‘‘
’’ ادھر آؤ میاں ‘‘
’’ کیوں جی !نماز کو آنے ہوتا نہیں ‘‘
میرے قلم میں یہ طاقت نہیں کہ آپ ؒ کے لب ولہجہ کی شیرینی کو ، مٹھاس کو ، حلاوت کو ، کیف وسرور کو سپردِ قرطاس کرسکے ۔
سارے جہاں کا در د ہمارے جگر میں ہے
اب تک میں نے جو واقعات سپردِ قلم کیے وہ ’عَنْعَنَہْ ‘ کی قبیل سے تھے ۔ لیجئے اب رأیتُ اور سمعتُ کے درجے کی چیز پیشِ خدمت ہے ۔
’’ حضرت میں ایک سال کے لیے جماعت میں جانا چاہتا ہوں ‘‘
راقم السطور نے ڈرتے ڈرتے حضرت کی خدمت میں اجازت طلب کی۔
اور اس ’’ ڈرتے ڈرتے‘‘ کی بھی ذرا وضاحت ہوجائے تومناسب ہے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب میں دارالعلوم سبیل الرشاد میں بحیثیت ناظم کتب خانہ خدمت انجام دے رہا تھا۔ ایک طرف والد ماجدکی خواہش اور خود اپنا بھی ارادہ کہ ایک سال اللہ کی راستے میں لگایا جائے ۔لیکن دوسری طرف یہ ڈر کہ اس ارادہ کو ’’مفوضہ خدمت سے راہِ فرار ‘‘ نہ خیال