پر ہاتھ رکھا معاشرہ کو سود کی لعنت سے پاک کیا ، ہر تاجر کو اس کا حق دیا اور معیشت کی بنیاد زکوٰۃ پر رکھ کر ایک ایسا عمدہ معاشرہ تعمیر فرمایا ، اگر انہیں اصولوں کو آج بھی اپنایا جائے تو وہی مثبت اثرات پیدا ہوں گے جو دور نبوت اور اس کے بعد ظاہر ہوئے تھے ۔ لوگوں کو اپنی زکوٰۃ لے کر غریبوں کو تلاش کرنا پڑتا تھا کیوں کہ غریب کوئی ملتا ہی نہیں ۔ خوشحالی ہی خوشحالی ہے ۔ اسلئے کہ سود سے پاک معاشرہ میں مال گردش میں ہوتا اور غریب اپنی محنت کی مکمل کمائی استعمال کرتاہے ۔ جب غریب کو محنت کے باوجود پورا فائدہ نہ حاصل نہ ہو اور مالدار صرف سرمایہ کی بنیاد پر اپنے مال میں اضافہ کرتے چلے جائیں تو یہ مال ایک جگہ جمع ہوجائے گا ۔ جب مال ایک جگہ جمع ہوجائے تو پھر بازار میں مال نہیں ہوگا ، مہنگائی آئے گی ، انسان معاشی غلامی کی تاریک سرنگوں میں بھٹکتے رہ جائے گا ۔ اسلئے کہ ارتکاز مال ( مال کا ایک جمع ہوجانا ) اور احتکار مال( ذخیرہ اندوزی کرنا تاکہ زیادہ فائدہ ملے) معاشی آزادی کی اہم رکاوٹیں ہیں ۔
خواہشات نفسانی سے آزادی
ایک اشکال یہ ہو سکتا ہے کہ اسلام میں آزادی کا جو تصور ہے وہ محدود ہے اور اسلام تو پابندیوں کے ایک مجموعے کا نام ہے ۔ قرآن و حدیث میں جگہ جگہ بہت سے افعال و اشیاء کا حرام ہونا مذکور ہے ۔اس کے باوجود یہ دعویٰ کیسے صحیح ہوگا کہ اسلام آزادی کا علم بردار ہے ؟ یہ اشکال دراصل ایک غلط فہمی کا نتیجہ ہے ۔ آزادی کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ انسان جو چاہے کرتا رہے اور اس کی کوئی پوچھ نہ ہو ۔ اگر ایسا ہوتا تو کسی بھی آزاد ملک میں کوئی قانون نافذ نہیں کیا جاسکتاتھا ، اور جب تک قانون کا نفاذ نہ ہو ملک کو چلانا کیسے ممکن ہے ؟ اس لئے کہ کسی بھی آزاد قوم کے پاس جب تک دستور نہیں اور قانون نہیں اس