اسلام میں آزادی کا تصور
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو آزاد پیدا فرمایا ، لیکن انسانوں نے خود غلامی کی ہتکڑیاں اور بیڑیاں پہن لیں یا پھر جابر انسانوں اور ظلاموں نے اپنے ہم جنس انسانوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رکھا ۔ یہی حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت انسانوں کا تھا ۔ ایک طرف ظالم حکمرانوں نے اپنے ماتحتوں کو غلام بنائے رکھا تھا ، دوسری طرف مذہبی پیشواؤں نے لوگوں کے دل و دماغ کو توہمات کی زنجیروں میں باندھ رکھا تھا ۔ غرض یہ کہ انسانیت تہذیبی تمدنی ، اخلاقی ، فکری ، جسمانی ، نظری ہر طرح کی غلامی کے اندھیروں میں ذلیل و خوار ہو چکی تھی۔وہ انسان جس کو اشرف المخلوقات اور’’ خلیفۃ اللہ علی الارض ‘‘ بناکر بھیجا گیا تھا سنگ و حجر کے سامنے اپنے آپ کو مسخر کر چکا تھا ۔
فکری اور اعتقادی آزادی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حقیقت کو واضح فرمایا کہ بتوں کی غلامی کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ اصل دین توحید ہے ، جس قدر یہ عقیدہ کسی میں راسخ ہوتا چلا جائے گا ، اسی قدر وہ شخص آزاد ہوتا چلا جائے گا ، صاحب توحید کو کسی قسم کی دنیوی قوت کے ذریعہ ڈرایا نہیں جاسکتا ، اسی لئے مؤمنین کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے {فَلا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ} انسانیت کا کمال یہی ہے کہ وہ ہر قسم کے وہم اور غیر اصلی خوف سے آزاد ہو جائے ، اس لئے کہ خدا کا ڈر تمام قسم کے خوف سے نجات دلا تا ہے ۔ یہ ایک توہمی اور ذہنی غلامی تھی جس کا طوق ہر کس و