’’سب مانگتے وقت مانگے تو کیا فائدہ جی۔ سب سورہے ہوں اس وقت مانگو‘‘۔
ٹال مٹول اور سستی سے کام لینے والے نفس کو بہلانے پھسلانے اور قیام اللیل پر آمادہ کرنے کے لیے اس قدر سادگی سے کہا گیا جملہ کیا کچھ اثر کر گیا ہوگا۔
خشوع وخضوع
مغرب کی نماز ہورہی تھی بڑے حضرت ؒ تحتانی مسجدمیں تھے ، وابستگانِ سبیل الرشاد جانتے ہیں کہ یہاں کی مسجد میں امام فوقانی مسجد میں ہوتا ہے، امام نے قرأت ختم کی اور رکوع میں جارہے تھے کہ نیچے سے بڑے حضرت کی بارعب آواز آئی ’’ امام صاحب، نماز دوبارہ پڑھاؤ۔ نماز فاسد ہوگئی‘‘۔
معلوم ہوا کہ امام صاحب نے سورہ بینہ میں خیر البریہ کی جگہ شرالبریہ پڑھ دیاہے ۔ زَلۃ القاری کے مسائل پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ اگر امام صاحب نے کسی آیت کی اس طرح تلاوت کی کہ اس کا مفہوم بالکل برعکس نکل گیا، اور آیت میں جو بات کہی جارہی ہے اس کے بالکل برعکس مطلب ہوگیا ۔ اور امام نے آیت کو دوبارہ صحیح نہ پڑھا بلکہ ویسے ہی آگے بڑھ کر رکوع کرلیا تو نماز جاتی رہے گی۔
مسائل اپنی جگہ ، مگر فوری طور پر ان پر عمل در آمد اسی کے بس کی بات ہے جو ان کا استحضار رکھتا ہو۔ نمازمیں خشوع وخضوع حاصل ہو۔ ورنہ تو ظہر کی چار رکعتوں میں چار دکانوں کا حساب کرنے والے کا واقعہ ہم سنتے سناتے چلے آئے ہیں ۔
بڑ پَن
کتابوں میں ہم نے پڑھا ہے
نہد شاخِ پرمیوہ سر بر زمیں
اور خود ہمارا تجربہ ہے کہ میوے سے لدی شاخ عجز وانکساری سے اپنا سر زمین پر